وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا
اور تمہاری عورتوں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں، اگر تمہیں کچھ شبہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں [١٥] ابھی حیض شروع ہی نہ ہوا ہو۔ اور حمل والی عورتوں کی عدت [١٦] ان کے وضع حمل تک ہے۔ اور جو شخص اللہ سے ڈرے [١٧] تو اللہ اس کے لئے اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔
1۔ وَ الّٰٓـِٔيْ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَآىِٕكُمْ....: ’’ الّٰٓـِٔيْ ‘‘ ’’اَللَّاتِيْ‘‘ کی طرح ’’اَلَّتِيْ‘‘ کی جمع ہے، وہ عورتیں۔ ’’ ارْتَبْتُمْ ‘‘ ’’رَيْبٌ‘‘ (شک) میں سے باب افتعال ماضی مطلق معروف جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے، اصل میں ’’اِرْتَيَبْتُمْ‘‘ تھا۔ یعنی وہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہو چکی ہیں اور وہ عورتیں جنھیں حیض آیا ہی نہیں، اگر انھیں دخول کے بعد طلاق ہو تو ان کی عدت تین قمری مہینے ہے، جب کہ دخول کے بغیر طلاق ہو تو ان پر کوئی عدت نہیں۔ دیکھیے سورۂ احزاب (۴۹)۔ 2۔ ’’ اِنِ ارْتَبْتُمْ ‘‘ (اگر تمھیں شک ہو) کے تین مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ اگر تمھیں شک ہو کہ عدت تو حیض سے شمار ہوتی ہے اور ان عورتوں کا حیض بند ہے یا آیا ہی نہیں تو ان کی عدت کا کیا کیا جائے، تو ہم تمھیں بتاتے ہیں کہ ان کی عدت تین قمری مہینے ہے۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ سعید بن جبیر سے مروی ہے اور ابن جریر نے یہی معنی پسند فرمایا ہے اور معنی کے لحاظ سے زیادہ ظاہر یہی ہے۔ ابن جریر نے اس پر اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت بطور دلیل ذکر فرمائی ہے کہ انھوں نے عرض کیا : ’’یا رسول اللہ! کئی طرح کی عورتوں کی عدت کا ذکر قرآن میں نہیں آیا، یعنی چھوٹی عمر کی عورتیں، عمر رسیدہ عورتیں اور حاملہ عورتیں۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ﴿ وَ الّٰٓـِٔيْ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَآىِٕكُمْ ﴾ ’’اور وہ عورتیں جو تمھاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہو چکی ہیں۔‘‘ ابن کثیر نے اس کے علاوہ ابن ابی حاتم کی سند کے ساتھ اسی مفہوم کی مفصل روایت ذکر کی ہے، مگر تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا کہ ان دونوں کی سند میں عمرو بن سالم (ابو عثمان انصاری) راوی ہے جسے تقریب میں مقبول کہا گیا ہے، یعنی اس کی متابعت ہو تو اس کی روایت قبول ہے ورنہ کمزور ہے اور یہاں اس کی متابعت نہیں کی گئی، لہٰذا اس کی سند ضعیف ہے۔ اس تفسیر کے مطابق ’’ اِنِ ارْتَبْتُمْ ‘‘ کے الفاظ کا کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ایسی عورتوں کو جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں، بیماری کا خون (استحاضہ) شروع ہو جائے اور تم فیصلہ نہ کر سکو کہ یہ حیض ہے یا استحاضہ تو ان کی عدت تین قمری مہینے ہے۔ یہ مجاہد اور زہری کا قول ہے۔ [ طبري : 69؍23، ح : ۳۴۶۱۷، ۳۴۶۱۸، بسند صحیح ] اس سے ظاہر ہے کہ جب شک کی صورت میں ان کی عدت تین ماہ ہے تو اگر انھیں کسی قسم کا خون آتا ہی نہیں اور ان کے حیض سے مایوس ہونے میں کوئی شک ہی نہیں تو ان کی عدت بالاولیٰ تین ماہ ہے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ عام قاعدہ یہی ہے کہ جن عورتوں کا حیض بند ہو گیا ہو یا شروع ہی نہ ہوا ہو انھیں حمل نہیں ہوتا، مگر شاذ و نادر ایسی عورتوں کو بھی حمل ہو جاتا ہے اور یہاں مسئلہ ان عورتوں کا بیان ہو رہا ہے جنھیں دخول کے بعد طلاق دی گئی ہے، اس میں حمل کا امکان بہر حال رہتا ہے۔ سو اگر تمھیں آثار سے ان کے حاملہ ہونے کا شک پڑ جائے تو ان کی عدت تین ماہ ہے، اتنی مدت میں ان کا حاملہ ہونا یا نہ ہونا واضح ہو جائے گا۔ اگر حاملہ نہ ہوں تو عدت تین ماہ ہی ہے اور اگر حمل ظاہر ہو جائے تو ان کی عدت وضع حمل ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ کہ حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگر حیض سے مایوس عمر رسیدہ عورت یا ایسی عورت جسے حیض آیا ہی نہیں اور ان کے متعلق حمل کا کوئی شک بھی نہ ہو تو ان کی عدت بالاولیٰ تین ماہ ہے۔ 3۔ وَ الّٰٓـِٔيْ يَىِٕسْنَ : یعنی وہ عورتیں جنھیں حیض آیا ہی نہیں ان کی عدت بھی تین ماہ ہے۔ اس میں چھوٹی عمر کی عورتیں بھی شامل ہیں جنھیں ابھی حیض نہ آیا ہو اور بڑی عمر کی عورتیں بھی جنھیں کسی وجہ سے حیض شروع ہی نہیں ہو سکا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ چھوٹی عمر کی لڑکی سے نکاح ہو سکتا ہے اور اس کا خاوند اس سے جماع بھی کر سکتا ہے۔ کفار کے کہنے پر چھوٹی عمر کی شادی پر پابندی لگانا یا بالغ ہو جانے والی لڑکیوں کی شادی پر اٹھارہ سال کی یا کسی مخصوص عمر کی پابندی لگانا اللہ تعالیٰ کے احکام کی صریح مخالفت ہے۔ 4۔ وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ : ’’ اُولَاتُ ‘‘ ’’ذَاتٌ‘‘ کی جمع ہے جیسا کہ ’’أُوْلُوْ‘‘ ’’ذُوْ‘‘ کی جمع ہے۔ ’’ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ ‘‘ حمل والیاں۔ آیت کے الفاظ عام ہیں، اس لیے حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہی ہے، خواہ اس کے خاوند نے اسے طلاق دی ہو یا اس کا خاوند فوت ہو جائے۔ صحیح احادیث سے بھی یہی بات ثابت ہے کہ حاملہ عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو بچہ پیدا ہونے کے ساتھ اس کی عدت ختم ہو جائے گی، خواہ خاوند فوت ہونے کے فوراً بعد بچہ پیدا ہو جائے یا کئی ماہ کے بعد پیدا ہو۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ کے ہاں ان کے خاوند کے قتل ہونے کے چالیس دن بعد بچہ پیدا ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نکاح کرنے کی اجازت دے دی۔ [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿و أولات الأحمال أجلہن....﴾ : ۴۹۰۹ ] رہی وہ عورتیں جو حاملہ نہ ہوں اور ان کے خاوند فوت ہو جائیں تو ان کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۳۴)۔ 5۔ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ يُسْرًا : اس سورت میں بار بار اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی تاکید کی گئی ہے، وجہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے مسائل بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک آدمی ہر وقت اللہ سے ڈرتا نہ رہے وہ اپنی بیوی کے معاملہ میں بے راہ رو ہو جاتا ہے، اس لیے کتاب و سنت میں اپنی بیویوں سے حسن سلوک کی بار بار تاکید آئی ہے۔ (کیلانی) اس مقام کی مناسبت سے اس کے کام میں آسانی پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ سے ڈرے گا اوّل تو طلاق کے وقت کے انتظار کی وجہ سے طلاق کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور اگر اللہ کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق طلاق دے گا تو عدت کے اندر اسے رجوع کا حق حاصل رہے گا اور اگر عدت ختم ہو جائے تو دوبارہ نکاح کا موقع باقی رہے گا۔