فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
لہٰذا جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرتے [٢٤] رہو اور سنو اور اطاعت کرو اور (اپنے مال) خرچ کرو۔ یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو شخص اپنے نفس [٢٥] کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔
1۔ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ....: ما ل و اولاد کے فتنے سے بچنے کے لیے چند چیزوں کی تاکید فرمائی، جن میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حسب استطاعت تقویٰ ہے، پھر سمع و طاعت اور آخر میں فتنہ بننے والے اس مال کو خرچ کرنا ہے اور اس میں بخل سے گریز کرناہے۔ 2۔ مَا اسْتَطَعْتُمْ: اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے لیے اللہ کے احکام پر اتنا عمل ہی فرض ہے جتنی اس میں طاقت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ [ البقرۃ : ۲۸۶ ]’’اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق۔‘‘ جہاں آدمی بے بس ہو جائے وہاں مؤاخذہ نہیں۔ (دیکھیے بقرہ : ۱۷۳۔ انعام : ۱۱۹۔ نحل : ۱۰۶) مؤاخذہ اسی صورت میں ہے جب آدمی استطاعت کے باوجود اللہ کی اطاعت نہ کرے۔رہی یہ بات کہ آدمی بہانہ بنا لے اور فرض کر لے کہ فلاں کام میری استطاعت سے باہر ہے، حالانکہ وہ اس کی استطاعت میں ہو تو اس پر اس کا ضرور مؤاخذہ ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ہر بات کا علم ہے۔ 3۔ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِيْعُوْا: یعنی اللہ اور اس کے رسول کے احکام سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے سمع و طاعت کی بیعت لیا کرتے تھے، عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیعت والی حدیث کے الفاظ ہیں : (( بَايَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلی السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ )) [ بخاري، الأحکام، باب کیف یبایع الإمام الناس ؟ : ۷۱۹۹ ] ’’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوش دلی اور ناگواری (ہر حال) میں سننے اور فرماں برداری کرنے پر بیعت کی۔‘‘ 4۔ وَ اَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ: ’’ خَيْرًا ‘‘ ’’يَكُنْ‘‘ کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے جو یہاں ’’ اَنْفِقُوْا ‘‘ کے جواب میں مقدر ہے۔ یعنی خرچ کرو یہ تمھارے لیے بہتر ہوگا۔ یہ مال کے فتنے کا تریاق ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ خرچ کیا جائے، جمع کر کے نہ رکھا جائے۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ اس وقت کعبہ کے سائے میں تھے اور فرما رہے تھے : (( هُمُ الْأَخْسَرُوْنَ وَ رَبِّ الْكَعْبَةِ، هُمُ الْأَخْسَرُوْنَ وَ رَبِّ الْكَعْبَةِ ((’’وہی سب سے زیادہ خسارے والے ہیں رب کعبہ کی قسم! وہی سب سے زیادہ خسارے والے ہیں رب کعبہ کی قسم!‘‘ میں نے کہا : ’’میرا کیا معاملہ ہے، کیا مجھ میں کوئی (خسارے والی) چیز دکھائی دے رہی ہے ، میرا معاملہ کیا ہے؟‘‘ خیر میں آپ کے پاس بیٹھ گیا اور آپ یہی فرماتے رہے۔ مجھ میں خاموش رہنے کی سکت نہ رہی، اللہ کو جو منظور تھا (یعنی بے قراری اور اضطراب) وہ مجھ پر طاری ہوگیا، تو میں نے پوچھا : ’’وہ کون ہیں یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((هُمُ الْأَكْثَرُوْنَ أَمْوَالًا إِلَّا مَنْ قَالَ هٰكَذَا وَهٰكَذَا وَهٰكَذَا )) [ بخاري، الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ : ۶۶۳۸۔ مسلم : ۹۹۰ ] ’’وہ لوگ جو بہت زیادہ اموال والے ہیں، سوائے اس کے جو اس طرح اور اس طرح اور اس طرح (بے دریغ ) خرچ کرے۔‘‘ 5۔ ’’ اَنْفِقُوْا ‘‘ (خرچ کرو)کا مصرف ذکر نہیں فرمایا، تاکہ عام رہے اور فرض و نفل ہر قسم کا خرچ کرتے رہنے کی تاکید ہو جائے۔ اس میں اپنی ذات پر، اہل و عیال پر اور ان لوگوں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے جن کی پرورش اس کے ذمے ہے۔ ضرورت کی دوسری جگہوں پر بھی، صدقات کے ان آٹھ مصارف میں بھی جن کا سورۂ توبہ کی آیت (۶۰) ’’ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ ....‘‘ میں ذکر ہے اور ان میں سے بھی خاص طور پر ان لوگوں پر جو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف ہیں۔ دیکھیے سورۂ بقرہ(۲۷۳) کی تفسیر۔ 6۔ وَ مَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ....: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ حشر کی آیت ( ۹) کی تفسیر۔ ’’شح‘‘سے بچنے کی تاکید سے ظاہر ہے کہ اہل و عیال پر خرچ بھی اللہ کے ساتھ قرض حسن کے معاملے میں شامل ہے۔