يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ۚ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! تمہاری بیویوں میں سے اور تمہاری اولاد میں سے بعض [٢١] تمہارے دشمن ہیں لہٰذا ان سے ہشیار رہو۔ اور اگر تم معاف کرو [٢٢] اور درگزر کرو اور انہیں بخش دو تو اللہ یقیناً بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ....: ’’ عَدُوًّا ‘‘ ’’فَعُوْلٌ‘‘ کا وزن ہے، واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، ’’ فَاحْذَرُوْهُمْ ‘‘ سے ظاہر ہے کہ یہاں جمع کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ ’’ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ ‘‘ میں ’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، یعنی بعض بیویاں اور اولادیں دشمن ہوتی ہیں سب نہیں، بلکہ بعض دین میں مددگار اور آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ہوتی ہیں۔اس سے پہلی آیات میں اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے، اب ایک ایسی چیز سے ہوشیار رہنے کاحکم دیاجو عموماً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور وہ آدمی کی بیوی اور اس کی اولاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی صورت گوارا نہیں کہ اس کا مومن بندہ اس سے بڑھ کر اور اس کے رسول سے بڑھ کر کسی سے محبت کرے، یا کسی عزیز سے عزیز شخص کے تقاضے کو اللہ اور اس کے رسول کے تقاضے پر ترجیح دے۔ (دیکھیے توبہ : ۲۴) یہاں خاص طور پر بعض بیویوں اور بعض اولاد کا ذکر فرمایا، کیونکہ آدمی ہر وقت ان کے ساتھ رہتا ہے اور طبعی طور پر ان سے محبت ہوتی ہے، اس لیے بعض اوقات وہ ان کی محبت میں آکر اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو پس پشت پھینک دیتا ہے اور ان کے آرام و آسائش کی خاطر حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتا۔ان کے اصرار پر کئی فرائض ترک کر دیتا ہے، کئی ناجائز کاموں کا ارتکاب کرلیتا ہے اور اس طرح اپنی آخرت تباہ کرلیتا ہے، ظاہر ہے جو اہل وعیال آخرت کی بربادی کا باعث بنیں ان سے بڑھ کر آدمی کا کوئی دشمن نہیں ہوسکتا۔ بعض بیویاں اور اولاد ناموافقت یا سرکشی کی وجہ سے فی الواقع بھی اپنے خاوند یا باپ کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں، مگر یہ ایسے دشمن ہیں کہ آدمی ان سے مسلسل دشمنی نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی ان سے علیحدگی اختیار کرسکتا ہے، بلکہ ان کے ساتھ گزارا ہی کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ ان کی دشمنی کا یہ علاج نہیں کہ انھیں مارو پیٹو، خرچہ بند کردو یا ان سے علیحدگی اختیار کر لو، بلکہ مارنے پیٹنے اور سختی کرنے کے بجائے اگر انھیں معاف کردو، ان سے در گزر کرو اور ان کی غلطیوں پر پردہ ڈال دو تو تمھارے لیے بہتر اور اللہ کو پسند ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ بے حد پردہ ڈالنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ البتہ اس عفو و درگزر کے باوجود جتنی طاقت ہے اللہ کے تقویٰ پر قائم رہو اور انھیں اس کی تلقین کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم میں یقیناً بہت سی حکمتیں ہیں، کیونکہ بعض اوقات آدمی کی سختی کی وجہ سے اولاد بغاوت پر اتر آتی ہے، جب کہ عفوو درگزر، مسلسل نصیحت اور خود تقویٰ پر قائم رہنے سے ان کی اصلاح کی توقع زیادہ ہوتی ہے۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے اس آیت ’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ ‘‘ کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا : ’’ یہ اہلِ مکہ میں سے کچھ لوگ تھے جو مسلمان ہوگئے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا ارادہ کر لیا (یاد رہے کہ ان دنوں ہر مسلمان ہونے والے کے لیے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا فرض تھا) مگر انھیں ان کی بیویوں اور بچوں نے نہیں چھوڑا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے۔ پھر جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انھوں نے دوسرے لوگوں کو دیکھا کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کر چکے تھے تو انھوں نے ارادہ کیا کہ اپنے بیوی بچوں کو سزا دیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔‘‘ [ ترمذي، التفسیر، سورۃ التغابن : ۳۳۱۷ وقال الألباني حسن ]