أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ فَذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
کیا تمہیں ان لوگوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا تھا پھر انہوں نے اپنے کام کا مزا چکھ [١٠] لیا۔ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
1۔ اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ: یعنی اگر تم اپنے اس خالق پر ایمان نہ لائے اور اس کے ساتھ کفر پر ڈٹے رہے جو ان صفات کا مالک ہے اور جس کی طرف تمھیں واپس جانا ہے، تو کیا تمھیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جنھوں نے اس سے پہلے اپنے خالق و مالک کے علاوہ اس کے رسولوں اور آخرت کا بھی انکار کیا، مثلاً قوم نوح، عاد و ثمود اور آل فرعون وغیرہ جو مال و دولت اور قوت و شوکت میں تم سے کہیں زیادہ تھے۔ (دیکھیے روم : ۹) قریش مکہ کا گزر اکثر شام اور یمن کی طرف سفر میں ان کی برباد شدہ بستیوں پرہوتا تھا اورعرب میں ان کے واقعات مشہور تھے۔ 2۔ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ: یعنی انھوں نے دنیا ہی میں اپنے کفر اور سرکشی کا وبال چکھ لیا، مگر یہ ان کی پوری اور اصل سزا نہ تھی بلکہ یہ صرف دنیا میں ان کے اعمال بد کا نتیجہ تھا جو دوسروں کو عبرت دلانے کے لیے دکھایا گیا تھا، جس سے تمھیں بھی عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ اصل سزا کے طور پر ان کے لیے نہایت درد ناک عذاب تیار ہے۔