هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
وہی تو ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔ پھر تم میں سے کوئی کافر ہے [٣] اور کوئی مومن، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب [٤] دیکھتا ہے
1۔ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ: یعنی اتنی صفات کے مالک ہی نے تمھیں پیدا کیا اور دوسری مخلوقات کی طرح تمھیں بھی ہر بات میں اپنے تکوینی حکم کا پابند کر دینے کے بجائے ایمان و کفر دونوں راستے واضح فرما کر تمھیں ان میں سے کسی ایک پر چلنے کا اختیار بخشا۔ اب حق تو یہ تھا کہ تم اپنے پیدا کرنے والے کا شکر ادا کرتے ہوئے اس پر ایمان لاتے، مگر اس کے بجائے تم دو گروہوں میں بٹ گئے۔ چنانچہ تم میں سے کچھ کفر کرنے والے ہیں اور کچھ ایمان لانے والے۔ اب یہ خیال مت کرنا کہ تمھارے اس کفرپر تم سے کوئی بازپرس نہیں ہوگی، یا ایمان لانے پر کوئی جزا نہیں ملے گی، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اسے پوری طرح دیکھنے والا ہے، وہ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق سزا یا جزا دے گا۔ یہاں ’’ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ ‘‘ کا ذکر پہلے اس لیے فرمایا کہ مقصود ناراضی کا اظہار ہے کہ اتنی صفات کے مالک اور اپنے خالق کے ساتھ بھی تم میں سے کئی کفر کرنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ کفر کرنے والے زیادہ ہیں۔ (دیکھیے بنی اسرائیل : ۸۹۔ سبا : ۲۰) اس آیت میں وہی بات بیان ہوئی ہے جو تفصیل کے ساتھ سورہ دہر کی ان آیات میں ہے، فرمایا : ﴿ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا (2) اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا (3) اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ سَلٰسِلَاۡ وَ اَغْلٰلًا وَّ سَعِيْرًا (4) اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا﴾ [ الدہر : ۲ تا ۵ ] ’’بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا، ہم اسے آزماتے ہیں، سو ہم نے اسے خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا بنا دیا۔بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ نا شکرا۔یقیناً ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔بلاشبہ نیک لوگ ایسے جام سے پییں گے جس میں کافور ملا ہوا ہو گا۔‘‘ 2۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ خلق کے وقت کوئی کافر نہیں ہوتا، بلکہ پیدا ہوتے وقت ہر انسان فطرت پر ہوتا ہے، پھر بعد میں کفر اختیار کرتاہے یا ایمان پر قائم رہتا ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ روم (۳۰ تا ۳۲) کی تفسیر۔ 3۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام لوگوں کی دو ہی قسمیں ہیں، یا تو مومن ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر ، یوم آخرت پر اور تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں یا پھر کافر ہیں، تیسری کوئی قسم نہیں جو نہ مومن ہوں نہ کافر۔ مومن گناہ کرے تو اس کی وجہ سے اسے ایمان سے خارج یا کافر قرار نہیں دیاجائے گا اور نہ ہی یہ کہا جائے گا کہ یہ نہ مومن ہے نہ کافر، بلکہ وہ ناقص ایمان والا مومن ہے اور اسے اس وقت تک مومن ہی کہا جائے گا جب تک وہ ان چیزوں پر ایمان رکھتا ہے جن کا دین ہونا سب کو معلوم ہے۔ اگر وہ ان میں سے کسی چیز کا انکار کرے یا ایسا کام کرے جو مرتد ہونے کی علامت ہے تو پھر وہ مومن نہیں بلکہ کافر ہے۔