يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ
کہتے ہیں : اگر ہم مدینہ واپس گئے تو (وہاں کا) عزیز تر آدمی، ذلیل تر آدمی کو نکال باہر [١٣] کرے گا حالانکہ تمام تر عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے لیکن منافق یہ بات جانتے نہیں۔
1۔ يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَا اِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں : ((كُنَّا فِيْ غَزَاةٍ قَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً فِيْ جَيْشٍ فَكَسَعَ رَجُلٌ مِّنَ الْمُهَاجِرِيْنَ رَجُلاً مِّنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ يَا لَلْأَنْصَارِ وَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ يَا لَلْمُهَاجِرِيْنَ فَسَمِعَ ذٰلِكَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا بَالُ دَعْوٰی جَاهِلِيَّةٍ؟ قَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! كَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ رَجُلاً مِّنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ دَعُوْهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ، فَسَمِعَ بِذٰلِكَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ أُبَيٍّ فَقَالَ فَعَلُوْهَا؟ أَمَا وَاللّٰهِ ! لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! دَعْنِيْ أَضْرِبْ عُنُقَ هٰذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُ لاَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ وَكَانَتِ الْأَنْصَارُ أَكْثَرَ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ حِيْنَ قَدِمُوا الْمَدِيْنَةَ، ثُمَّ إِنَّ الْمُهَاجِرِيْنَ كَثُرُوْا بَعْدُ )) [بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿سواء علیھم أستغفرت لھم ﴾ : ۴۹۰۵ ] ’’ایک بار ہم ایک لشکر میں تھے تو ایک مہاجر آدمی نے ایک انصاری کو اس کے پیچھے کی جانب لات مار دی۔‘‘ تو انصاری نے کہا : ’’او انصاریو!‘‘ اور مہاجر نے کہا : ’’او مہاجرو!‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا : ’’جاہلیت کی اس پکار کا کیا معاملہ ہے؟‘‘ لوگوں نے بتایا کہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کے پیچھے کی جانب لات مار دی ہے، تو آپ نے فرمایا : ’’اس (جاہلیت کی پکار) کو چھوڑ دو، کیونکہ یہ بہت بدبو دار ہے۔‘‘ یہ بات عبداللہ بن اُبی نے سنی تو کہنے لگا : ’’انھوں نے ایسا کیا ہے؟ یاد رکھو! اگر ہم مدینہ واپس پہنچے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ ذلیل تر کو اس سے ضرور نکال باہر کرے گا۔‘‘ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہا : ’’یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے رہنے دو، لوگ یہ بات نہ کریں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔‘‘ اور انصار مہاجرین سے زیادہ تھے جب وہ مدینہ میں آئے، پھر بعد میں مہاجرین زیادہ ہوگئے۔‘‘ 2۔ وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۠ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ: یعنی یہ منافقین جو کہہ رہے ہیں کہ زیادہ عزت والا ذلیل تر کو نکال باہر کرے گا، تو انھیں معلوم نہیں کہ زیادہ عزت والا بلکہ ساری عزت کا مالک کون ہے۔ سو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ عزت کا اصل مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، پھر وہ ہے جسے وہ عزت عطا فرمائے۔ (دیکھیے نساء : ۱۳۹۔ آل عمران : ۲۶) اور اس نے عزت اپنے رسول اور مومن بندوں کے لیے مقرر فرمائی ہے۔ سو یہ سوچ لیں کہ اگر عزت والے نے ذلیل تر کو مدینہ سے نکالنے کا ارادہ کر لیا تو اس فیصلے کی زد بھی انھی منافقین پر پڑے گی، مگر ان جاہلوں کو علم ہی نہیں۔ 3۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے جو حدیث اوپر نقل کی گئی ہے، ترمذی میں اس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں : (( فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ : وَاللّٰهِ ! لاَ تَنْقَلِبُ حَتّٰی تُقِرَّ أَنَّكَ الذَّلِيْلُ وَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ الْعَزِيْزُ فَفَعَلَ )) [ترمذي، تفسیر القرآن، سورۃ المنافقون : ۳۳۱۵، وقال الألباني صحیح ] ’’تو اس (عبداللہ بن اُبی) کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : ’’اللہ کی قسم! تم واپس نہیں جاؤ گے حتیٰ کہ اقرار کرو کہ تم ہی ذلیل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی عزیز ہیں۔‘‘ چنانچہ اس نے ایسے ہی کیا۔‘‘