وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
اگر آپ ان کا قدو قامت [٥] دیکھیں تو آپ کو بہت پسند آئے اور اگر ان کی بات سنیں توبس سنتے ہی رہ جائیں۔ گویا وہ دیواروں [٦] کے ساتھ لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں۔ (بزدل ایسے کہ) ہر زور کی آواز کو سمجھتے ہیں کہ ان پر [٧] (کوئی بلا) آئی یہی لوگ دشمن ہیں ان سے ہوشیار رہیے [٨]۔ انہیں اللہ غارت کرے، کہاں سے بہکائے جاتے ہیں۔
1۔ وَ اِذَا رَاَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْ: اکثر منافقین خوش حال، صاحب حیثیت، تیز طرار اور ہوشیار لوگ تھے، ان کی خوش حالی اور مال کی حرص ہی ان کے نفاق کا باعث تھی۔ ان کا سردار عبداللہ بن اُبی معاشی لحاظ سے بھی رئیس تھا اور دیکھنے میں بھی بڑا خوب صورت، لمبے قد والا اور جسیم تھا۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے اس کے اور اس کے ساتھیوں کے متعلق فرمایا : (( كَانُوْا رِجَالاً أَجْمَلَ شَيْءٍ )) [ بخاري : ۴۹۰۳ ] ’’وہ بہت خوبصورت آدمی تھے۔‘‘ مزید تفصیل آگے آیت (۷) کی تفسیر میں دیکھیے۔ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (بدر کے قیدیوں میں سے) عباس مدینہ میں تھے، انصار نے انھیں پہنانے کے لیے کپڑا تلاش کیا مگر انھیں عبداللہ بن اُبی کی قمیص کے علاوہ کوئی قمیص نہ ملی جو ان کے جسم پر پوری آتی ہو، چنانچہ انھوں نے وہی ان کو پہنا دی۔ [ نسائي، الجنائز، باب القمیص في الکفن : ۱۹۰۳، وقال الألباني صحیح ] اہل علم فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن اُبی کی وفات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیص جو پہنائی اس پر دوسری مصلحتوں کے علاوہ اس احسان کا بدلا اتارنا بھی مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پچھلی آیت میں ’’فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ منافقین کی ناسمجھی بیان کرنے کے ساتھ ہی فرمایا کہ اے مخاطب! جب تو انھیں دیکھے تو ڈیل ڈول اور خوبصورتی کی وجہ سے ان کے جسم تجھے بہت اچھے دکھائی دیں گے اور اگر وہ بات کریں تو ایسے فصیح و بلیغ ہیں کہ تو ان کی بات سنتا ہی رہ جائے۔ ان کی چرب زبانی کا ذکر سورۂ بقرہ (۲۰۴) میں بھی آیا ہے۔ یہاں بعض مفسرین نے’’ وَ اِذَا رَاَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْ ‘‘ میں مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیا ہے، مگر بہتر ہے کہ اسے ہر مخاطب کے لیے عام رکھا جائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو شروع سے انھیں دیکھتے آ رہے تھے۔ 2۔ ظاہر ہے کہ ’’ اِذَا رَاَيْتَهُمْ ‘‘ (جب تو انھیں دیکھے) سے عبداللہ بن اُبی اور اس جیسے منافق مراد ہیں، کیونکہ تمام منافق تو حسین و جمیل نہیں تھے اور نہ ہی ایسے فصیح و بلیغ تھے۔ (التسہیل) 3۔ كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ: ’’ خُشُبٌ ‘‘ ’’خَشَبَةٌ ‘‘ کی جمع ہے، لکڑیاں۔ اس وزن کی یہ جمع بہت کم آتی ہے۔ مفسرین نے اس کی نظیر ’’ ثَمَرَةٌ ‘‘ کی جمع ’’ ثُمُرٌ ‘‘ لکھی ہے۔ ’’ مُسَنَّدَةٌ ‘‘ باب تفعیل سے اسم مفعول ہے، دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر رکھی ہوئی۔ یعنی جیسے لکڑیوں میں طول و عرض اور خوبصورتی کے باوجود عقل اور سمجھ نہیں ہوتی اسی طرح یہ بھی عقل اور سمجھ سے عاری ہیں۔ جب یہ آپ کی مجلس میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوں تو یہ مت سمجھیں کہ یہ آدمی ہیں، بلکہ یوں سمجھیں کہ لکڑیاں ہیں جو ٹیک لگا کر دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی ہیں، گو بظاہر خوبصورت نظر آتے ہیں۔ زمخشری نے فرمایا کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ حسین و جمیل اور جسیم و عریض ہونے کے باوجود ان سے کسی نفع کی امید نہیں، جس طرح کار آمد لکڑی چھت، دروازے یا کھڑکیوں میں یا کہیں نہ کہیں استعمال ہوتی ہے، مگر بے کار لکڑیوں کو دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ 4۔ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ: اس میں ان کی بزدلی کا نقشہ کھینچا ہے کہ جوں ہی کوئی آواز بلند ہوتی ہے یا شور اٹھتا ہے تو وہ اسے اپنے آپ پر پڑنے والی اُفتاد ہی سمجھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کفار کا حملہ ہو گیا ہو جس میں ہمیں لڑنا پڑے اور اس میں ہماری موت ہو۔ (دیکھیے احزاب : ۱۹) یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ہمارے خبث باطن کا پتا چل گیا ہو اور ہمارے خلاف کارروائی کا حکم آگیا ہو، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں رسوا کرنے والی یا ہمارے قتل کے حکم والی کوئی آیت یا سورت اتری ہو۔ (دیکھیے توبہ : ۶۴) 5۔ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ: ’’ الْعَدُوُّ ‘‘ خبر پر الف لام لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو رہا ہے کہ تمھارے اصل دشمن یہی ہیں، کیونکہ کھلم کھلا کفار کی عداوت ظاہر ہے جس سے بچاؤ آسان ہے، یہ گھر کے بھیدی اور آستین کے سانپ ہیں جو مسلمان بن کر ہر وقت تمھارے ساتھ ہیں۔ ان کی عداوت زیادہ خطر ناک ہے اور اس سے بچنا بہت مشکل ہے، اس لیے ان سے ہوشیار رہیں۔ 6۔ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ: یہ بد دعا کا کلمہ ہے، اللہ انھیں ہلاک کرے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دعا یا بددعا کی کیا ضرورت ہے، وہ تو جو چاہے کر سکتا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں ان کے حق میں لوگوں کی زبان پر آنے والی بد دعا نقل کی گئی ہے۔ مراد ان کی مذمت ہے۔ 7۔ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ: یعنی اتنے واضح دلائل کے باوجود ایمان چھوڑ کر یہ لوگ کہاں بہکائے جا رہے ہیں۔