يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ
اے ایمان والو! اللہ (کے دین) کے مددگار [١٦] بن جاؤ۔ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ : ’’اللہ کی طرف (بلانے میں) کون میرا مددگار ہے؟‘‘ تو حواریوں نے جواب دیا۔ ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں۔ پھر بنی اسرائیل کا ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور دوسرے گروہ نے انکار کردیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی کہ تو وہی [١٧] غالب رہے۔
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰهِ....:’’اَلْحَوَارِيُّ‘‘ ’’حَارَ يَحُوْرُ حَوْرًا ‘‘( ن )’’ اَلثَّوْبَ‘‘ کپڑے کو دھونا اور خوب سفید کرنا۔ دھوبی کو اسی لیے حواری کہتے ہیں کہ وہ کپڑے کو دھو کر سفید کر دیتا ہے۔ ’’ حُوَّارٰي‘‘ صاف سفید میدے کو کہتے ہیں جس سے چھان نکال دیا گیا ہو۔ خالص دوست اور بے غرض مددگار کو اسی لیے حواری کہتے ہیں کہ اس کا دل ہر قسم کے کھوٹ سے پاک صاف اور خیر خواہی اور محبت میں خالص ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَ إِنَّ حَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ )) [ بخاري، فضائل الصحابۃ، باب مناقب الزبیر بن العوام رضی اللّٰہ عنہ : ۳۷۱۹ ] ’’ہر نبی کا کوئی حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر بن عوام( رضی اللہ عنہ ) ہے۔‘‘ 2۔ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ۠ مَنْ اَنْصَارِيْ اِلَى اللّٰهِ: ’’ اِلَى اللّٰهِ ‘‘ کی ترکیب دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ ’’مَنْ أَنْصَارِيْ فِي الدَّعْوَةِ إِلَي اللّٰهِ‘‘ ’’اللہ کی طرف دعوت میں میرے مددگار کون ہیں؟‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْ اَدْعُوْا اِلَى اللّٰهِ﴾ [ یوسف : ۱۰۸ ] ’’کہہ دے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔‘‘ اور دوسری ترکیب یہ ہے : ’’مَنْ أَنْصَارِيْ ذَاهِبًا إِلَي اللّٰهِ ‘‘ ’’اللہ کی طرف جاتے ہوئے میرے مددگار کون ہیں؟‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق فرمایا : ﴿وَ قَالَ اِنِّيْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ﴾ [الصافات : ۹۹ ] ’’اور اس نے کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں، وہ مجھے ضرور راستہ دکھائے گا۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ آلِ عمران (۵۲) کی تفسیر۔ 3۔ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ....: جہاد فی سبیل اللہ کے دوران کئی مرحلے آتے ہیں جن میں سب سے آخری مرحلہ اللہ کے دشمنوں سے قتال اور جنگ کا ہوتا ہے، جس کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان سورت کے شروع سے آ رہا ہے۔ اس سے بھی مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب حق کی طرف دعوت دینے والا اکیلا ہوتا ہے یا اس کے ساتھ چند آدمی ہوتے ہیں۔ دوسرے تمام لوگ اس کے دشمن ہوتے ہیں جو گالی گلوچ، استہزا، مار پیٹ، غرض ہر طرح کی تکلیف دے کر اسے دعوت حق سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات اس کے ساتھیوں کو یا ان کے ساتھ اسے بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ ایسے وقت میں حق کی طرف دعوت دینے والے کے ساتھ کھڑا ہونا، اپنی جان و مال کی پروا نہ کرتے ہوئے تمام تکلیفیں برداشت کرنا اور حق پر ثابت قدم رہنا بڑے عزم و ہمت والے لوگوں کا کام ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَتُبْلَوُنَّ فِيْ اَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا اَذًى كَثِيْرًا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ﴾ [ آل عمران : ۱۸۶ ] ’’یقیناً تم اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں ضرور آزمائے جاؤ گے اور یقیناً تم ان لوگوں سے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جنھوں نے شرک کیا، ضرور بہت سی ایذا سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور متقی بنو تو بلاشبہ یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔‘‘ پھر یہ سب کچھ سہتے ہوئے کئی لوگ قید کر دیے جاتے ہیں، کئی معذور ہو جاتے ہیں، کئی شہید ہو جاتے ہیں اور آخر میں وہ مرحلہ آتا ہے جب اللہ کے دشمنوں سے جنگ ہوتی ہے اور اس وقت جو لوگ دشمنوں کے مقابلے میں قلیل اور ضعیف ہونے کے باوجود میدان میں ڈٹ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی خاص مدد فرماتا ہے اور انھیں فتح و نصرت سے ہم کنار کر کے دشمن پر غلبہ عطا فرما دیتا ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کے سامنے عیسیٰ علیہ السلام کے مخلص ساتھیوں کا نمونہ پیش کر کے انھیں حکم دیا ہے کہ وہ بھی ان کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ﴿مَنْ اَنْصَارِيْ اِلَى اللّٰهِ﴾ پر لبیک کہیں اور ہر تکلیف پر صبر کرتے ہوئے جان و مال کی قربانی کے ذریعے سے ان کا ساتھ دیں۔ یہ بات معلوم ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو دشمنوں سے قتال کا مرحلہ پیش نہیں آیا، اس وقت کے یہود نے انھیں پہچان لینے کے باوجود اتنا ستایا اور تنگ کیا کہ ان کے لیے دعوت دینا بھی مشکل ہوگیا۔ اس وقت انھوں نے یہ کہا کہ اللہ کی طرف دعوت دینے میں اور اس کے راستے پر چلنے میں میرے مددگار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا، ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ اس وقت بنی اسرائیل کے دو گروہ ہوگئے، ایک وہ جو ان پر ایمان لے آئے اور ان کے فرمان ’’ مَنْ اَنْصَارِيْ اِلَى اللّٰهِ ‘‘ پر ’’ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ ‘‘ کہہ کر لبیک کہا، پھر جان و مال کے ساتھ ہر طرح سے ان کی مدد کی اور اس راستے میں دشمنوں کی طرف سے دی جانے والی تکلیفوں پر صبر کیا۔ دوسرے وہ جنھوں نے انھیں رسول ماننے سے انکار کر دیا، انھیں جھوٹا کہا اور ان کی ماں پر تہمتیں لگائیں، حکومتِ وقت سے مل کر انھیں گرفتار کروایا اور اپنے گمان کے مطابق انھیں سولی پر چڑھا کر دم لیا، اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس گمان کی تردید فرمائی ہے۔ دیکھیے سورۂ آلِ عمران (۵۲ تا ۵۵) اور سورۂ نساء (58،57)۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سب سے پہلے یہی مرحلہ پیش آیا۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تو کفار مکہ کی طرف سے شدید مزاحمت کی گئی اور آپ کو اور آپ کے ساتھ مسلمان ہونے والے مردوں اور عورتوں کو سخت تکلیفیں دی گئیں، جس کی وجہ سے بہت تھوڑے لوگ ایمان لانے کی جرأت کر سکے۔ پھر کئی حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے اور کئی مکہ ہی میں ظلم و ستم سہتے رہے۔ آزمائشوں اور تکلیفوں کا یہ سلسلہ کئی سال جاری رہا، حتیٰ کہ کفار قریش نے آپ کو دعوت سے مطلق روک دیا۔ آپ ہر سال حج کے لیے آنے والے قبائل کے پاس جا کر ایک ایک قبیلہ کو کہتے کہ کون ہے جو مجھے اپنے ساتھ لے جا کر اللہ کا پیغام پہنچانے میں میری مدد کرے۔ کئی سال کے بعد وہ موقع آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے کچھ لوگوں کو آپ کی دعوت پر انصار اللہ بننے کی توفیق عطا فرمائی۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : (( كَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُ نَفْسَهُ عَلَی النَّاسِ بِالْمَوْقِفِ فَيَقُوْلُ هَلْ مِنْ رَجُلٍ يَحْمِلُنِيْ إِلٰی قَوْمِهِ، فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُوْنِيْ أَنْ أُبَلِّغَ كَلاَمَ رَبِّيْ عَزَّوَجَلَّ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِّنْ هَمْدَانَ فَقَالَ مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ مِنْ هَمْدَانَ، قَالَ فَهَلْ عِنْدَ قَوْمِكَ مِنْ مَنَعَةٍ؟ قَالَ نَعَمْ، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَشِيَ أَنْ يَخْفِرَهُ قَوْمُهُ ، فَأَتٰي رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ آتِيْهِمْ، فَأُخْبِرُهُمْ، ثُمَّ آتِيْكَ مِنْ عَامٍ قَابِلٍ، قَالَ نَعَمْ، فَانْطَلَقَ وَجَاءَ وَفْدُ الْأَنْصَارِ فِيْ رَجَبٍ )) [ مسند أحمد :3؍390، ح : ۱۵۱۹۲، قال المحقق إسنادہ صحیح علی شرط البخاري] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو حج کے موقع پر موقف میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے اور کہتے تھے : ’’کیا کوئی آدمی ہے جو مجھے اپنے ساتھ اپنی قوم کے پاس لے جائے؟ کیونکہ قریش نے مجھے میرے رب کا کلام پہنچانے سے منع کر دیا ہے۔‘‘ تو ہمدان کا ایک آدمی آپ کے پاس آیا، آپ نے فرمایا : ’’تم کن لوگوں سے ہو؟‘‘ اس آدمی نے کہا : ’’ہمدان سے۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’تو کیا تیری قوم کے پاس کچھ حفاظت اور دفاع مل سکتا ہے؟‘‘ اس نے کہا : ’’ہاں!‘‘ پھر وہ آدمی ڈر گیا کہ کہیں اس کی قوم اس کا کیا ہوا عہد پورا نہ کرے، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : ’’میں ان کے پاس جاؤں گا اور انھیں بتاؤں گا، پھر آئندہ سال آپ کے پاس آؤں گا۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’ٹھیک ہے۔‘‘ چنانچہ وہ چلا گیا اور انصار کا وفد رجب میں آگیا۔‘‘ 4۔ فَاَيَّدْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلٰى عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِيْنَ: یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت پر بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے انھیں رسول ماننے سے انکار کر دیا۔ انکار کرنے والے یہودی تھے اور ایمان لانے والے نصرانی۔ ایمان لانے والے قلیل تھے اور کفر کرنے والے بہت زیادہ تھے۔ ان یہودیوں نے مسیح علیہ السلام کو اللہ کا پیغام پہنچانے سے روکنے کی ہر کوشش کی اور مسیح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں پر بدترین مظالم کیے، مگر نہ عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی طرف دعوت کو ترک کیا اور نہ ہی ان کے ساتھیوں نے ان کا ساتھ دینے سے کوئی کوتاہی کی، حتیٰ کہ جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھا لیا تو اس وقت بھی ایمان والوں کی استقامت میں کمی نہیں آئی، وہ بدستور ڈٹے رہے اور اسلام کی طرف دعوت دیتے رہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کفار کے ساتھ قتال کی توفیق عطا فرمائی۔ پھر جب وہ قلت تعداد کے باوجود میدان میں ڈٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں قوت بخشی اور ان کی مدد فرمائی، تو وہ اپنے دشمن پر غالب آگئے اور ان کے دشمن یہودی مغلوب ہوگئے جو آج تک مغلوب چلے آ رہے ہیں۔ پھر جب عیسیٰ علیہ السلام کے نام لیوا شرک میں مبتلا ہوگئے اور انھیں رب تعالیٰ یا رب کا بیٹا کہنے لگے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو، جو عیسیٰ علیہ السلام پر صحیح ایمان لانے والی تھی، ان پر غالب کر دیا۔ 5۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی بھی کفار کے ظلم و ستم سہتے رہے اور سہ رہے تھے، اس میں ان کے لیے بشارت ہے کہ اگر تم عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کی طرح اللہ تعالیٰ کے انصار ہوگے تو اللہ تعالیٰ تمھیں بھی تمھارے دشمنوں پر غالب کرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کفار پر غلبہ عطا فرما دیا، اس فرق کے ساتھ کہ مسیح علیہ السلام اپنے ساتھیوں کا غلبہ دیکھنے سے پہلے اٹھا لیے گئے، جب کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ نظارا آنکھوں سے دکھا دیا جس کا ذکر سورۂ نصر میں ہے، فرمایا : ﴿ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ (1) وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا﴾ [ النصر : 2،1 ] ’’جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے۔ اور تو لوگوں کو دیکھے کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔‘‘ ہاں، عیسیٰ علیہ السلام جب دوبارہ تشریف لائیں گے تو وہ بنفس نفیس اس فتح اور غلبے میں شریک ہوں گے جو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھی مسلمانوں کو ان کے دشمنوں اور دجال پر عطا فرمائے گا۔