وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا۔ اے بنی اسرائیل! میں یقیناً تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے نازل [٦] ہوئی۔ اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد [٧] ہوگا۔ پھر جب وہ رسول واضح دلائل [٨] لے کر ان کے پاس آگیا تو کہنے لگے : ’’یہ تو صریح جادو ہے‘‘
1۔ وَ اِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ....:’’ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ ‘‘ کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی درست ہیں، ایک یہ کہ میں اپنے سے پہلے نازل شدہ کتاب تورات کی تردید نہیں بلکہ تصدیق کرنے والا ہوں۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۴۶) کی تفسیر۔ دوسرا یہ کہ میرا وجود ان بشارتوں کو سچا ثابت کرنے والا ہے جو میرے متعلق تورات میں دی گئی ہیں، میں ان کا مصداق ہوں، لہٰذا تم پر لازم ہے کہ مجھ پر ایمان لاؤ۔ 2۔ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗ اَحْمَدُ: اس سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک ’’ اَحْمَدُ ‘‘ کی صراحت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوش خبری دی تھی۔ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے : (( إِنَّ لِيْ أَسْمَاءً ، أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَنَا أَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِيْ يَمْحُو اللّٰهُ بِيَ الْكُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِيْ يُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِيْ، وَ أَنَا الْعَاقِبُ )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ تعالٰی : ﴿یأتی من بعدي اسمہ أحمد ﴾ : ۴۸۹۶ ] ’’میرے کئی نام ہیں، میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ میرے ساتھ اللہ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر (اکٹھا کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے پیچھے جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب (سب نبیوں کے بعد آنے والا) ہوں۔‘‘ ’’ اَحْمَدُ ‘‘ (أَفْعَلُ) اسم تفضیل ہے جو اسم فاعل اور اسم مفعول دونوں کے معنی میں آتا ہے۔ اسم فاعل کے معنی میں ہو تو مطلب ہوگا ’’بہت زیادہ حمد کرنے والا‘‘ اور حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد کرنے والے اور آپ کی امت کے لوگ ’’حَمَّادُوْنَ‘‘ (بہت زیادہ حمد کرنے والے) ہیں۔ اگر اسم مفعول کے معنی میں ہو تو معنی ہے ’’جس کی بہت زیادہ تعریف کی گئی۔‘‘ اس صورت میں یہ اسم مبارک ’’محمد‘‘ کا ہم معنی ہے۔ اسم تفضیل کے اسم مفعول کے معنی میں آنے کی مثال قرآن مجید میں ملتی ہے، فرمایا : ﴿ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ يَقُوْلُوْنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا هٰؤُلَآءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَبِيْلًا﴾ [ النساء : ۵۱ ] ’’کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا، وہ بتوں اور باطل معبود پر ایمان لاتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ان سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں جو ایمان لائے ہیں۔‘‘ اس آیت میں ’’ اَهْدٰى ‘‘ اسم فاعل کے معنی میں (زیادہ ہدایت دینے والے) نہیں بلکہ اسم مفعول کے معنی میں ہے، یعنی ’’زیادہ ہدایت دیے گئے۔‘‘ اسی طرح سورۂ فاطر (۴۲) میں بھی ’’ اَهْدٰى ‘‘ اسم مفعول کے معنی میں ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کی اس بشارت میں دو چیزیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں، ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے زمانے کی تعیین کہ وہ مسیح علیہ السلام کے بعد آئے گا، دوسرا اسم مبارک ’’ اَحْمَدُ ‘‘ کی صراحت، تاکہ آپ کے متعلق کوئی ابہام یا پوشیدگی نہ رہے۔ جہاں تک نام کا تعلق ہے تو قرآن کے بیان کے مطابق یہ بات یقینی ہے کہ انجیل میں یہ نام موجود تھا۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن کا یہ بیان غلط ہوتا تو نزول قرآن کے زمانے کے نصرانی ضرور اس کی تردید کرتے۔ موجودہ انجیلوں میں اس نام کا مذکور نہ ہونا اس کی نفی کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ اس وقت اصل انجیل دنیا میں موجود ہی نہیں۔ ہمارے سامنے جو انجیلیں عربی، انگریزی یا اردو میں ہیں یہ سب ترجمہ در ترجمہ ہیں۔ ان ترجموں میں باہمی اختلاف اس قدر ہے جتنا خود ان انجیلوں میں ہے۔ یہ ترجمہ کرنے والے حضرات ہر لفظ کا ترجمہ کرتے جاتے ہیں خواہ وہ کسی کا نام ہو، حالانکہ نام میں تبدیلی یا اس کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ پھر جب کتمان حق اور تحریف کی عادت بھی ہو تو بات کہاں سے کہاں جا پہنچے گی۔ اس کے باوجود زمانے کی تعیین کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کے ساتھ انجیل میں یہ بشارت کئی جگہ موجود ہے جو آپ کے سوا کسی اور پر منطبق نہیں ہوتی۔ یہاں انجیل یوحنا سے چند حوالے نقل کیے جاتے ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دی گئی ہے۔ مسیح علیہ السلام نے فرمایا : ’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمھیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمھارے ساتھ رہے، یعنی سچائی کا روح۔‘‘ [ یوحنا، باب ۱۴، فقرہ : 17،16 ]’’لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمھیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمھیں یاد دلائے گا۔‘‘ [ یوحنا، باب ۱۴، فقرہ : ۲۶ ] ’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا، کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔‘‘ [ یوحنا، باب ۱۴، فقرہ : ۳۰ ] ’’لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمھارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔‘‘ [ یوحنا، باب ۱۵، فقرہ : ۲۶ ] ’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا، لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمھیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ [ یوحنا، باب ۱۶، فقرہ : 13،12] یہ حوالے یوحنا کی انجیل سے نقل کیے گئے ہیں جو نصرانیوں کے تمام فرقوں کے ہاں مسلّم ہے۔ انجیل برناباس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ’’محمد‘‘ کی صراحت بار بار آئی ہے، مگر موجودہ نصرانی جو پال کے پیروکار ہیں وہ چونکہ اسے نہیں مانتے، اس لیے یوحنا کی انجیل کے حوالے نقل کیے گئے ہیں۔ ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ایسی صفات کے ساتھ دی گئی ہے جو آپ کے سوا کسی اور پر صادق ہی نہیں آتیں۔ مثلاً ’’وہ تمھیں دوسرا مدد گار بخشے گا کہ ابد تک تمھارے ساتھ رہے۔‘‘ اور ’’وہی تمھیں سب باتیں سکھائے گا۔‘‘ اور ’’دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔‘‘ غور کیجیے! مسیح علیہ السلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کون ہے جس پر یہ صفات صادق آتی ہوں۔ 3۔ فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ: بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے مراد مسیح علیہ السلام ہیں، کیونکہ آیت کے شروع میں ان کے خطاب کا ذکر ہے، مگر راجح بات یہ ہے کہ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، یعنی پھر جب وہ ’’احمد‘‘ جس کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی واضح نشانیاں لے کر ان کے پاس آیا تو انھوں نے اسے پہچاننے کے باوجود کھلا جادو کہہ کر جھٹلا دیا، جیسا کہ فرمایا : ﴿فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ﴾ [ البقرۃ : ۸۹ ] ’’پھر جب ان کے پاس وہ چیز آگئی جسے انھوں نے پہچان لیا تو انھوں نے اس کے ساتھ کفر کیا، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘ ابن جریر طبری نے یہی معنی کیا ہے اور ابن کثیر اور بہت سے مفسرین نے اسی معنی پر اکتفا کیا ہے، اس کی تائید بعد کی آیت میں ’’ وَ هُوَ يُدْعٰى اِلَى الْاِسْلَامِ ‘‘ کے الفاظ سے بھی ہوتی ہے، کیونکہ اس سورت کے نزول کے وقت اسلام کی دعوت دینے والے احمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے نہ کہ مسیح علیہ السلام ۔ 4۔ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ: یعنی آپ جو نشانیاں اور معجزات لے کر آئے ان کے متعلق انھوں نے کہہ دیا کہ یہ کھلا جادو ہے، یا مبالغے کے لیے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر کے بجائے مجسم جادو کہہ دیا، جیسے ’’ زَيْدٌ عَادِلٌ‘‘ کے بجائے ’’ زَيْدٌ عَدْلٌ‘‘ کہہ دیتے ہیں۔