يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ
اے ایمان والو! ایسے لوگوں کو دوست نہ بناؤ جن پر اللہ کا غضب [٣٠] ہوا، وہ تو آخرت سے ایسے ہی مایوس ہیں جیسے کافر اہل قبور [٣١] سے مایوس ہیں۔
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ: سورت کے شروع میں ’’ لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ ‘‘ میں مشرکین کی دوستی سے منع فرمایا تھا، آخر میں یہود کی دوستی سے منع فرمایا۔ قرآن مجید میں ’’مغضوب عليهم‘‘ عموماً یہود کو کہا گیا ہے۔ دیکھیے سورۂ فاتحہ میں ’’غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ‘‘ کی تفسیر۔ 2۔ قَدْ يَىِٕسُوْا مِنَ الْاٰخِرَةِ كَمَا يَىِٕسَ الْكُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ: اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے، ایک یہ کہ ’’ مِنْ ‘‘ بیانیہ ہے اور ’’ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ‘‘ ’’ الْكُفَّارُ‘‘ کا بیان ہے۔ یعنی ان لوگوں کو دوست مت بناؤ جن پر اللہ تعالیٰ غصے ہو گیا، (کیونکہ انھوں نے حق کو جانتے ہوئے اور یہ پہچانتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی ہیں، آپ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا، اس لیے) وہ آخرت (کی ہر خیر) سے نا امید ہو چکے، جس طرح وہ کافر آخرت (کی ہر خیر) سے ناامید ہو چکے جو قبروں والوں میں سے ہیں، یعنی وہ کافر جو فوت ہو چکے اور اپنی آنکھوں سے اپنے عذاب کو دیکھ کر ہر خیر سے مایوس ہو چکے، ان کی طرح یہ یہودی بھی جان بوجھ کر حق کو جھٹلانے کی وجہ سے آخرت (کی ہر بھلائی) سے مایوس ہیں، سو انھیں دوست مت بناؤ۔ متن میں ترجمہ اسی مفہوم کے مطابق کیا گیا ہے اور طبری نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ’’ مِنْ ‘‘ ابتدائیہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو دوست مت بناؤ جن پر اللہ تعالیٰ غصے ہوا، جو آخرت کے واقع ہونے سے اسی طرح ناامید ہیں جس طرح کفار قبروں والوں کے واپس آنے سے ناامید ہو چکے ہیں۔ یہ دونوں تفسیریں درست ہیں۔ 3۔ بعض اہلِ علم نے ’’مغضوب عليهم‘‘ کو عام رکھا ہے اور فرمایا ہے کہ جس طرح ’’ عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ ‘‘ کے الفاظ عام ہیں، اسی طرح ’’مغضوب عليهم‘‘ کے الفاظ بھی عام ہیں، ان میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین و منافقین سبھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے سبھی کی دوستی سے منع فرمایا ہے اور ان سب پر اللہ کا غضب بھی ہے۔ سبھی آخرت میں کسی بھی خیر کی توقع سے محروم ہیں اور سب کافر اس بات سے بھی ناامید ہو چکے ہیں کہ مرنے والے ان کے پاس دوبارہ آئیں گے۔ قرآن مجید میں یہود کے علاوہ دوسرے کفار کے لیے بھی ’’غضب‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۷۱)، نحل (۱۰۶)، شوریٰ (۱۶) اور سورۂ فتح (۶)۔