وَإِن فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِّنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَآتُوا الَّذِينَ ذَهَبَتْ أَزْوَاجُهُم مِّثْلَ مَا أَنفَقُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ
اور اگر تمہاری کافر بیویوں کے مہروں میں سے تمہیں (کفار سے) کچھ نہ ملے۔ پھر تم نے کفار کا تعاقب [٢٤] (کرکے مال غنیمت حاصل) کیا۔ تو اس مال میں سے ان مسلمانوں کو ان کی کافر بیویوں کے حق مہر کے برابر مال دے دو جو انہوں نے خرچ کیا تھا۔ اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔
وَ اِنْ فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ اِلَى الْكُفَّارِ ....: یعنی اگر کافر ان عورتوں کا مہر مسلمانوں کو واپس نہ کریں جو کافر ہو کر یا کافر رہ کر دارالاسلام سے کفار کے ہاں چلی جائیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ کافروں کا جو مال لوٹیں اس میں سے ان مسلمان شوہروں کا خرچ ادا کریں جن کی بیویاں دارالکفر کو بھاگ جائیں، یا دار الکفر سے جو عورتیں مسلمان ہو کر دارالاسلام میں آ جائیں ان کے مہر کافروں کو واپس کرنے کے بجائے ان مسلمان شوہروں کو ادا کریں جن کی بیویاں دار الکفر کو بھاگ جائیں۔ ’’ فَعَاقَبْتُمْ ‘‘ (پھر تم بدلا حاصل کرو ) کے مفہوم میں دونوں چیزیں شامل ہیں، یعنی لڑائی میں مال غنیمت حاصل کرنا یا مقابلہ میں ان کی عورتوں کا مہر ادا کرنا۔ ابن کثیر لکھتے ہیں، اس ’’ فَعَاقَبْتُمْ ‘‘ کے مفہوم میں وسعت ہے، اگر کفار کا مہر ادا کرنا باقی ہو تو مسلمانوں کو وہ دے دیا جائے، ورنہ مال غنیمت سے اس کے نقصان کی تلافی کر دی جائے۔ ابنِ جریر نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ (اشرف الحواشی)