عَسَى اللَّهُ أَن يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُم مِّنْهُم مَّوَدَّةً ۚ وَاللَّهُ قَدِيرٌ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
کچھ بعید نہیں کہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان دوستی پیدا کر دے [١٦] جن سے تم عداوت رکھتے ہو۔ اور اللہ بڑی قدرتوں والا ہے، اور وہ بہت بخشنے والا [١٧] ہے رحم کرنے والا ہے
1۔ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَ الَّذِيْنَ عَادَيْتُمْ مِّنْهُمْ مَّوَدَّةً: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے مشرک رشتہ داروں سے قطع تعلق کا جو حکم دیا اس کے مطابق اپنے عزیزوں سے ناتا توڑنا اگرچہ نہایت مشکل کام تھا مگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی اور کسی قرابت کی پروا نہیں کی، اللہ تعالیٰ نے ان کے صدق و اخلاص کو دیکھ کر اس آیت کے ساتھ ان کی دلجوئی فرمائی اور انھیں بشارت دی کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جن کے ساتھ دین کی وجہ سے تمھاری دشمنی ہے دوستی پیدا کر دے، تمھارے یہ عزیز مسلمان ہو جائیں اور دشمنی پھر محبت میں بدل جائے۔ 2۔ وَ اللّٰهُ قَدِيْرٌ: بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ جن لوگوں نے مسلمانوں کو مکہ سے نکالا، مدینہ میں بھی چین نہ لینے دیا، بدر و احد، خندق اور دوسرے معرکے برپا کیے وہ دوبارہ دوست بن جائیں گے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اس کے لیے دلوں کو پھیر دینا کچھ مشکل نہیں۔ چنانچہ ان آیات کے نزول کے بعد تھوڑی مدت ہی گزری تھی کہ مکہ فتح ہو گیا، قریش اور دوسرے قبائل فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے اور سوائے ان کفار کے جو قتل ہوگئے تھے، آخر کار سب مسلمان ہو گئے، حتیٰ کہ جزیرۂ عرب میں کوئی مشرک باقی نہ رہا۔ ابو سفیان اور دوسرے قریشی سردار جو مسلمانوں کے خلاف لڑتے آئے تھے، اب اسلام کی سربلندی کے لیے سربکف ہو کر لڑنے لگے۔ 3۔ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: یعنی مشرکین نے اب تک اہلِ ایمان سے جو عداوت رکھی اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت و رحمت کی وجہ سے اس سے درگزر فرما کر انھیں ایمان لانے اور مسلمانوں کے دوست بن جانے کی توفیق عطا فرمانے والا ہے۔