هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
وہ اللہ ہی ہے جو پیدا [٣٩] کرنے والا ہے۔ سب کا موجد [٤٠] اور صورتیں عطا کرنے والا [٤١] ہے۔ اس کے سب نام اچھے [٤٢] ہیں۔ آسمانوں اور زمین میں جو مخلوقات ہیں سب اسی کی تسبیح کر رہی ہیں اور وہ زبردست ہیں، حکمت والا ہے۔
1۔ هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ : خلق، برء اور تصویر پیدائش کے تین مراحل ہیں، پہلا مرحلہ یہ کہ کوئی چیز بنانے سے پہلے اس کا پورا اندازہ لگانا اور نقشہ و خاکہ بنانا ہوتا ہے، یہ خلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا پہلے ہی ایک اندازہ اور نقشہ طے کر دیا ہے کہ وہ کیسی ہوگی، مثلاً انسان کی کیا شکل ہوگی، درخت کیسا ہو گا وغیرہ۔ دوسرا مرحلہ ان چیزوں کو وجود میں لانا ہے جن سے اسے بنایا جانا ہے اور انھیں تراش خراش اور ڈھال کر وہ صورت قبول کرنے کے قابل بنانا جو اس کے لیے طے کی گئی ہے۔ یہ ’’برء‘‘ ہے۔ مثلاً انسان کو مٹی سے بنایا، مٹی کو گارا بنایا، پھر آدم علیہ السلام کا ڈھانچہ بنایا۔ تیسرا اور آخری مرحلہ تصویر ہے جس کے ساتھ کوئی چیز مکمل ہو کر وجود میں آ جاتی ہے۔ کائنات کی ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز کو اللہ تعالیٰ نے تصویر عطا فرمائی ہے، زمین و آسمان ہوں یا چیونٹی اور ذرہ، ہر چیز کو پیدا کرنے کے تمام مراحل اسی کے ہاتھ میں ہیں، انسان اگر کچھ بناتا بھی ہے تو اس کے ہر کام کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ﴾ [ الصافات : ۹۶ ] ’’اور اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو۔‘‘ ان تینوں اسماء میں سے ہر ایک مطلق بنانے اور پیدا کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ اعراف (۱۱ ) کی تفسیر۔ 2۔ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى : یعنی ان آیات میں جو اسماء اور صفات بیان ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ صرف انھی کے ساتھ متصف نہیں، بلکہ ہر بہترین اسم و صفت کا وہی مستحق ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۸۰) کی تفسیر۔ 3۔ يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ: سورت کی ابتدا بھی اسی بات سے ہوئی ہے اور انتہا بھی۔ ابتدا میں’’ سَبَّحَ لِلّٰهِ ‘‘ ہے اور انتہا میں ’’ يُسَبِّحُ لَهٗ ‘‘ ہے۔ اس میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانے آگئے۔ آیت کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ حدید کی پہلی آیت اور سورۂ بنی اسرائیل (۴۴) کی تفسیر۔ 4۔ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ ’’ أَعُوْذُ بِاللّٰهِ السَّمِيْعِ الْعَلِيْمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ‘‘ کہے، پھر سورۂ حشر کی آخری تین آیتیں پڑھے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ستر ہزار (70,000) فرشتے مقرر کر دیتے ہیں جو شام تک اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔ اگر وہ اس دن فوت ہو جائے تو شہید فوت ہوگا اور جو شام کو انھیں پڑھ لے اسے بھی یہ مرتبہ ملے گا۔‘‘ [ ترمذي، فضائل القرآن، باب في فضل قراء ۃ آخر سورۃ الحشر : ۲۹۲۲۔ مسند أحمد :5؍26، ح : ۲۰۳۰۶ ] مسند احمد کے محققین اور شیخ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ تفصیل مسند احمد کی تحقیق میں ملاحظہ فرمائیں۔