لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۚ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے [٢٦] دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور و فکر کریں۔
1۔ لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ ....: یعنی یہ یہود اور منافقین قرآن مجید کی آیات سننے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے، حالانکہ وہ تو ایسی عظیم الشان اور پر تاثیر کتاب ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ بھی اللہ کے ڈر سے دب جاتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً﴾ [ البقرۃ : ۷۴ ] ’’پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں یا سختی میں ان سے بھی بڑھ کر ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ پہاڑوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے ادراک اور سوجھ بوجھ رکھی ہے۔ ان کے سامنے امانت پیش کی گئی، مگر وہ اس سے ڈر گئے اور انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا۔ (دیکھیے احزاب : ۷۲) پہاڑوں اور جمادات میں ادراک کے وجود کے لیے سورۂ بقرہ (۷۳)، بنی اسرائیل (۴۴)، نحل (49،48) اور سورۂ ص (۱۸) کی تفا سیر پر نظر ڈال لیں۔ 2۔ وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ....: یعنی ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور و فکر کریں کہ ایسی زبردست تاثیر والی چیز بھی ان کے دلوں پر اثر انداز نہیں ہو رہی تو اس کا سبب کیا ہے، پھر اس سبب کو دور کرنے کی کوشش کریں۔