أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم کرتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول ہی جاتے ہو [٦٣] حالانکہ تم کتاب (تورات) کی تلاوت کرتے ہو؟ کیا تم کچھ بھی عقل سے کام نہیں لیتے؟
یعنی لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیتے ہو اور خود بھول جاتے ہو کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم بھی موجود ہے۔ [ابن أبي حاتم عن ابن عباس:1؍122، ح : ۴۷۴، ۴۷۵] قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’بنی اسرائیل لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نیکی کا حکم دیتے اور خود عمل نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں عار دلائی۔‘‘ (عبد الرزاق) اب مسلمانوں کا حال بھی بنی اسرائیل جیسا ہو گیا، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو شخص خود عمل نہ کرے وہ دوسروں کو بھی نیکی کا حکم نہ دے، کیونکہ یہود کو اس بات پر عار دلائی ہے کہ وہ عمل نہیں کرتے، اس پر نہیں کہ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور جو شخص دعوت دے کر خود عمل نہ کرے اسے دوسروں سے زیادہ سزا ملے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا، اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور اس کی انتڑیاں آگ میں نکل کر ڈھیر ہو جائیں گی، وہ ان کے گرد ایسے گھومے گا جیسے گدھا اپنی چکی کے گرد گھومتا ہے۔ آگ والے اس کے گرد جمع ہو جائیں گے اور کہیں گے، اے فلاں ! تیرا کیا معاملہ ہے ؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور ہمیں برائی سے منع نہیں کرتا تھا؟ وہ کہے گا، میں تمھیں نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود وہ کام نہیں کرتا تھا اور تمھیں برائی سے منع کرتا تھا اور خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔‘‘ [ بخاری، بدء الخلق، باب صفۃ النار و أنہا مخلوقۃ : ۳۲۶۷، عن أسامۃ رضی اللّٰہ عنہ ]