هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
وہی تو ہے جس نے پہلے ہی حملے میں اہل کتاب کافروں [١] کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ تمہیں یہ خیال بھی نہ تھا کہ وہ (اپنے گھروں سے) نکل جائیں گے [٢] اور وہ یہ یقین کئے بیٹھے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ (کی گرفت) سے بچا لیں [٣] گے۔ مگر اللہ نے ایسے رخ سے انہیں آلیا جس کا انہیں خواب و خیال بھی نہ تھا۔ اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ خود ہی اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے اور مسلمانوں کے ہاتھوں بھی کروانے لگے۔ پس اے اہل بصیرت! عبرت حاصل کرو۔
1۔ هُوَ الَّذِيْ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ : ’’ هُوَ ‘‘ مبتدا کے بعد ’’ الَّذِيْ ‘‘ خبر معرفہ لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو رہا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جس کی تسبیح ہر وہ چیز کرتی ہے جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز بھی جو زمین میں ہے اور جو اکیلا ہی عزیز و حکیم ہے، اسی نے اہل کتاب میں سے ان لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا جنھوں نے کفر کیا، اس کے سوا انھیں نکالنے والا اور کوئی نہیں۔ یہ اس لیے فرمایا کہ مسلمان جنگ کے بغیر ان کے جلا وطن ہو جانے کو اپنی بہادری نہ سمجھیں، بلکہ اللہ کا انعام سمجھ کر اس کی تسبیح و تحمیدکریں اور اسی کا شکر بجا لائیں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ’’ هُوَ الَّذِيْ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ ‘‘ کے متعلق فرمایا کہ اس سے مراد بنو نضیر کے یہود ہیں۔ یہ بات ابن عباس، مجاہد، زہری اور بہت سے لوگوں نے کہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ان سے صلح کر لی اور معاہدہ کیا کہ نہ آپ ان سے لڑیں گے اور نہ وہ آپ سے لڑیں گے، مگر انھوں نے آپ کے ساتھ کیے ہوئے اس عہد کو توڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا وہ عذاب نازل فرمایا جو ہٹایا نہیں جا سکتا اور ان پر اپنا وہ فیصلہ جاری فرمایا جسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جلا وطن کر دیا اور انھیں ان کے ان مضبوط و محفوظ قلعوں سے نکال باہر کیا جن کے حاصل ہونے کا مسلمانوں کو کبھی طمع تک پیدا نہ ہوا تھا اور جن کے متعلق یہود یہ سمجھتے تھے کہ وہ انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا لینے والے ہیں، مگر وہ ان کے کسی کام نہ آئے اور اللہ کی طرف سے ان پر ایسی گرفت آئی جو ان کے وہم و گمان میں نہ تھی۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات مذکور ہیں جن میں ان کے عہد توڑنے کے متعدد واقعات کا ذکر ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو سنن ابو داؤد میں مروی ہے، عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنھم میں سے ایک صحابی سے بیان کیا : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے، ابھی بدر کا معرکہ نہیں ہوا تھا کہ کفار قریش نے عبداللہ بن اُبی کی طرف اور اوس و خزرج میں سے اس کے بت پرست ساتھیوں کی طرف خط لکھا کہ تم نے ہمارے ساتھی کو جگہ دے رکھی ہے، ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم ہر حال میں اس سے لڑوگے یا اسے نکال دو گے یا ہم سب اکٹھے ہو کر تم پر حملہ آور ہوں گے، تمھارے لڑنے والوں کو قتل کریں گے اور تمھاری عورتیں لوٹ کر لے جائیں گے۔ جب یہ خط عبد اللہ بن اُبی اور اس کے بت پرست ساتھیوں کے پاس پہنچا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ ان سے ملے اور فرمایا : (( لَقَدْ بَلَغَ وَعِيْدُ قُرَيْشٍ مِّنْكُمُ الْمَبَالِغَ مَا كَانَتْ تَكِيْدُكُمْ بِأَكْثَرَ مِمَّا تُرِيْدُوْنَ أَنْ تَكِيْدُوْا بِهِ أَنْفُسَكُمْ تُرِيْدُوْنَ أَنْ تُقَاتِلُوْا أَبْنَاءَكُمْ وَ إِخْوَانَكُمْ ((’’قریش کی دھمکی تم پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے، وہ تمھارے نقصان کی اس سے زیادہ کوئی تدبیر نہیں کر سکتے تھے جتنی تم خود اپنے خلاف کر رہے ہو کہ تم اپنے ہی بیٹوں اور بھائیوں سے جنگ کرنا چاہتے ہو۔‘‘ جب انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی تو وہ منتشر ہوگئے۔ کفارِ قریش کو بھی یہ خبر پہنچ گئی، چنانچہ انھوں نے بدر کے واقعہ کے بعد یہود کو خط لکھا کہ تم اسلحے اور قلعوں والے لوگ ہو، تمھیں ہر حال میں ہمارے ساتھی سے لڑنا ہوگا، یا ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے اور ہمارے درمیان اور تمھاری عورتوں کی پازیبوں کے درمیان کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔ جب یہ خط بنو نضیر کو پہنچا تو انھوں نے عہد توڑنے پر اتفاق کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ آپ اپنے ساتھیوں میں سے تیس آدمیوں کے ساتھ ہماری طرف آئیں، ہم میں سے بھی تیس علماء آپ کی طرف آئیں گے اور ہم ایک درمیانی جگہ میں ملیں گے۔ وہ آپ کی بات سنیں گے، اگر انھوں نے آپ کی تصدیق کر دی اور آپ پر ایمان لے آئے تو ہم بھی آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ صحابی نے ان کا واقعہ بیان کیا کہ جب اگلا دن ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکروں کو لے جا کر ان کا محاصرہ کر لیا اور انھیں فرمایا : (( إِنَّكُمْ وَاللّٰهِ ! لاَ تَأْمَنُوْنَ عِنْدِيْ إِلاَّ بِعَهْدٍ تُعَاهِدُوْنِيْ عَلَيْهِ (( ’’اللہ کی قسم! تمھیں میرے ہاں امن نہیں ہوگا جب تک تم نئے سرے سے میرے ساتھ کوئی عہد نہیں کرو گے۔‘‘ انھوں نے آپ کو کسی قسم کا عہد و پیماں دینے سے انکار کر دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن ان سے جنگ جاری رکھی، پھر اگلے دن لشکروں کو لے کر بنی قریظہ کی طرف گئے اور بنو نضیر کو چھوڑ دیا اور انھیں بھی معاہدہ کرنے کی دعوت دی تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کر لیا۔ آپ انھیں چھوڑ کر واپس آگئے اور لشکر لے کر بنو نضیر کے پاس پہنچ گئے اور ان سے جنگ جاری رکھی، حتیٰ کہ وہ جلا وطنی کی شرط پر قلعوں سے اتر آئے۔ چنانچہ بنو نضیر جلا وطن ہوگئے اور اپنے سازو سامان، گھروں کے دروازوں اور ان کی لکڑیوں میں سے جو اونٹوں پر لاد کر لے جا سکتے تھے لے گئے۔ بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھے، وہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائے تھے اور صرف آپ کے لیے مخصوص فرمائے تھے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ مَا اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ﴾ [ الحشر : ۶ ] ’’اور جو (مال) اللہ نے ان سے اپنے رسول پر لوٹایا تو تم نے اس پر نہ کوئی گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ۔‘‘ یعنی وہ لڑائی کے بغیر حاصل ہوئے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا زیادہ تر حصہ مہاجرین کو دے دیا اور اسے ان کے درمیان تقسیم کر دیا اور ان میں سے کچھ حصہ دو انصاریوں کو بھی دیا جو ضرورت مند تھے۔ ان دو کے سوا انصار میں سے کسی کو اس میں سے نہیں دیا اور اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ باقی رہ گیا جو بنو فاطمہ کے پاس رہا۔‘‘ [ أبو داؤد، الخراج والفيء والإمارۃ، باب في خبر النضیر : ۳۰۰۴، قال الألباني صحیح الإسناد ] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بنو نضیر نے نہ صرف عہد توڑ دیا تھا بلکہ معاہدے کی تجدید سے بھی صاف انکار کر دیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد توڑنے کی وجہ سے ان کا محاصرہ کیا اور آخر کار انھیں جلا وطن کر دیا۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرمایا : ’’اصحاب سیر و مغازی نے غزوۂ بنو نضیر کا قصہ اور اس کا سبب جو بیان کیا ہے وہ اختصار کے ساتھ اس طرح ہے کہ جب بئر معونہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو شہید کر دیا گیا، جن کی تعداد ستر (۷۰) تھی، تو ان میں سے ایک عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ بچ کر بھاگ نکلے، مدینہ کی طرف واپس آتے ہوئے انھوں نے موقع پا کر قبیلہ بنو عامر کے دو آدمیوں کو قتل کر دیا (اور یہ سمجھے کہ وہ بئر معونہ کے شہداء کا کچھ بدلا لے رہے ہیں)، حالانکہ یہ قبیلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کر چکا تھا اور آپ نے انھیں امن و امان دے رکھا تھا، لیکن اس کی خبر عمرو رضی اللہ عنہ کو نہیں تھی۔ جب وہ مدینہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے انھیں قتل کر ڈالا، اب میں ہر صورت ان کی دیت دوں گا۔‘‘ بنو نضیر اور بنو عامر میں بھی حلف و عقد اور آپس میں مصالحت تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلے تاکہ کچھ وہ دیں اور کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیں اور بنو عامر کو راضی کر لیا جائے۔ قبیلہ بنو نضیر کے قلعے مدینہ کے مشرق کی جانب کئی میل کے فاصلے پر تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی دیت کے سلسلے میں تعاون حاصل کرنے کے لیے وہاں پہنچے تو انھوں نے کہا: ’’ہاں، اے ابو القاسم! جیسے آپ پسند فرمائیں گے، ہم ہر طرح سے آپ کی مدد کریں گے۔‘‘ ادھر آپ سے ہٹ کر انھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سے بہتر موقع کب ہاتھ لگے گا، اس وقت آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قبضے میں ہیں، آؤ کام تمام کر ڈالو۔ چنانچہ یہ مشورہ ہوا کہ جس دیوار سے آپ لگے بیٹھے ہیں اس گھر پر کوئی چڑھ جائے اور وہاں سے بڑا سا پتھر آپ پر پھینک دے اور ہماری جان ان سے چھڑا دے۔ عمرو بن جحاش بن کعب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور چھت پر چڑھ گیا۔ چاہتا تھا کہ پتھر لڑھکا دے، اتنے میں اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے اٹھ کھڑے ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً اٹھ گئے، آپ کے ساتھ اس وقت آپ کے صحابہ کی ایک جماعت بھی تھی، جن میں ابو بکر و عمر اور علی رضی اللہ عنھم بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے فوراً مدینہ کی طرف چل پڑے۔ ادھر جو صحابہ آپ کے ساتھ نہیں تھے اور مدینہ میں آپ کے منتظر تھے، وہ آپ کے دیر کر دینے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اس دوران انھیں مدینہ سے آنے والے ایک آدمی نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچ گئے ہیں، چنانچہ وہ صحابہ واپس پلٹ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے ساتھ یہود کے غدر کی بات بتائی اور ان کے ساتھ جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا اور صحابہ کو لے کر ان کی طرف چل پڑے۔ یہود لشکروں کو دیکھ کر اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا، پھر حکم دیا کہ ان کے کھجور کے درخت جو آس پاس ہیں، وہ کاٹ دیے جائیں۔ اب تو یہود چیخنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ تو زمین میں فساد کرنے سے اوروں کو روکتے تھے اور فسادیوں کو برا کہتے تھے، پھر یہ کیا ہونے لگا؟ پس ادھر تو درخت کٹنے کا غم اور ادھر جو کمک آنے والی تھی اس کی طرف سے مایوسی، ان دونوں چیزوں نے ان یہودیوں کی کمر توڑ دی۔‘‘ (ابن کثیر) 2۔ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ : ’’ الْحَشْرِ ‘‘ کا معنی ’’اکٹھا کرنا‘‘ ہے۔ ’’أَوَّلٌ‘‘ صفت ہے جو اپنے موصوف کی طرف مضاف ہے۔ گویا اصل میں ’’ لِلْحَشْرِ الْأَوَّلِ‘‘ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کو پہلے ہی اکٹھ پر ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ یا ’’أَوَّلٌ‘‘ کا لفظ ’’ الْحَشْرِ ‘‘ کی طرف مضاف حقیقی ہے اور معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اکٹھ کے اوّل (شروع) ہی میں نکال باہر کیا، لڑنے کی نوبت ہی نہیں آئی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ خود ہی جلا وطنی پر آمادہ ہوگئے۔ شاہ ولی اللہ نے اس کا ترجمہ کیا ہے : ’’در اوّل جمع کردن لشکر۔‘‘ اور شاہ عبدالقادر نے ترجمہ کیا ہے : ’’پہلے ہی بھیڑ (ٹکراؤ) ہوتے۔‘‘ 3۔ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ يَّخْرُجُوْا : بنو نضیر مدینہ سے دو میل کے فاصلے پر آباد تھے، یہ لوگ صنعت و حرفت اور تجارت کے علاوہ سود خوری کی وجہ سے بہت مال دار تھے، ان کے پاس ہر قسم کا سامانِ حرب موجود تھا اور انھوں نے نہایت مستحکم قلعے بنا رکھے تھے۔ تعداد میں بھی وہ مسلمانوں سے کم نہ تھے، بنو قریظہ اور خیبر کے یہودی ان کی پشت پر تھے اور انھیں عبد اللہ بن اُبی اور منافقین کی اشیرباد بھی حاصل تھی کہ ہم لڑائی میں ہر طرح سے تمھاری مدد کریں گے۔ اس لیے مسلمانوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ مڈبھیڑ ہوتے ہی لڑائی کے بغیر نکل جائیں گے۔ 4۔ وَ ظَنُّوْا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ : ’’ظَنٌّ‘‘ کا معنی گمان بھی ہے اور یقین بھی، جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت (۴۶) : ﴿الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ ﴾ میں ہے۔ یعنی یہود کو گمان بلکہ یقین تھا کہ وہ اتنے محفوظ ہیں کہ ان کے قلعے انھیں اللہ سے بھی بچا لینے والے ہیں۔ 5۔ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا : ’’حَسِبَ يَحْسِبُ‘‘ گمان کرنا۔ ’’اِحْتَسَبَ ‘‘ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے مبالغہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان کے پاس وہاں سے آیا جہاں سے انھیں ادنیٰ گمان بھی نہ تھا۔ 6۔ وَ قَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ : ’’ قَذَفَ ‘‘ کا معنی پتھر وغیرہ پھینکنا ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دفعتاً اچانک شدت کے ساتھ ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ اس میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کہاں سے ان کے پاس آیا، یعنی وہ اپنے قلعے، ان کی دیواریں، دروازے اور چھتیں مضبوط کرتے رہے اور گلی کوچوں سے داخل ہونے کے راستے بند کرتے رہے، مگر اللہ تعالیٰ نے براہِ راست ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب یعنی شدید خوف ڈال دیا۔ جب دل ہی قائم نہ رہا تو ان کے قلعے انھیں کیا بچاتے؟ جتنے حمایتی تھے سب انھی کی طرح شدید خوف زدہ ہو کر انھیں چھوڑ گئے۔ چنانچہ انھوں نے خود ہی اس شرط پر اتر آنے کی درخواست کی کہ ہمیں جان و مال کی امان دی جائے، ہم یہاں سے نکل جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلحہ کے سوا جو چیز بھی وہ لے جا سکیں ساتھ لے جانے کی اجازت دی اور انھیں جلا وطن کر دیا۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگ خیبر میں جا آباد ہوئے اور کچھ شام کی طرف چلے گئے۔ دشمن کے دل میں رعب ڈال دینا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی مدد ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کے ساتھ جتنی مدد کی گئی اتنی کسی اور پیغمبر کی نہیں کی گئی۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أُعْطِيْتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِيْ، نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيْرَةَ شَهْرٍ )) [بخاري، التیمم، باب : ۳۳۵ ] ’’مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں (وہ یہ کہ) ایک مہینے کے فاصلے سے رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے۔‘‘ آگے باقی چار چیزیں بیان فرمائیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں ان کے شرک کرنے کی وجہ سے رعب ڈالنے کے ساتھ مسلمانوں کی مدد کا بھی وعدہ فرمایا ہے، دیکھیے سورۂ آلِ عمران (151،150)۔ 7۔ يُخْرِبُوْنَ بُيُوْتَهُمْ بِاَيْدِيْهِمْ : جب انھیں یقین ہوگیا کہ اب جانا ہی جانا ہے تو انھوں نے اندر ہی اندر اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو گرانا شروع کر دیا۔ اس کا باعث ایک تو مسلمانوں پر حسد تھا کہ وہ ان کے کام نہ آسکیں اور دوسرا یہ کہ ان کے دروازے، کھڑکیاں، شہتیر اور بالے وغیرہ ساتھ لے جاسکیں۔ 8۔ وَ اَيْدِي الْمُؤْمِنِيْنَ : وہ لوگ محاصرے کے اندر اپنے مکان گرا رہے تھے اور مسلمان باہر سے ان کی فصلیں، دیواریں اور مکان گرا رہے تھے، تاکہ اندر داخلے کا راستہ کھلا ہو جائے اور لڑائی ہو تو وسیع میدان میسر ہو سکے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جتنی چیزیں لے جا سکتے تھے نکال کر لے جا رہے تھے اور مسلمان ان کے گرائے ہوئے گھروں سے باقی سامان نکالنے کے لیے انھیں مزید تہ و بالا کر رہے تھے۔ 9۔ فَاعْتَبِرُوْا يٰاُولِي الْاَبْصَارِ : تو اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو کہ کفر و سرکشی اور بدعہدی کا انجام کیا ہوتا ہے، کیونکہ سعادت مند وہی ہے جو دوسروں کو دیکھ کر عبرت حاصل کر لے۔ ابن جزی نے اپنی تفسیر’’اَلتَّسْهِيْلُ لِعُلُوْمِ التَّنْزِيْلِ‘‘ میں فرمایا : ’’جو لوگ فقہ میں قیاس کو ثابت کرتے ہیں انھوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے، حالانکہ ان کا اس آیت سے استدلال ضعیف ہے اور آیت کے مفہوم سے خارج ہے۔‘‘