لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی [٢٦] مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں [٢٧] اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح [٢٨] کے ذریعہ انہیں قوت بخشی ہے۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی [٢٩] ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہی اللہ کی پارٹی ہے۔ سن لو! اللہ کی پارٹی کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔
1۔ لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ ....: یعنی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستی دو ایسی چیزیں ہیں جو ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں، خواہ وہ آدمی کے کتنے قریبی رشتہ دار ہوں، اس لیے منافقین جو ایمان کے دعوے کے باوجود کفار سے دوستی رکھتے ہیں ان کا ایمان کا دعویٰ غلط ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ آلِ عمران (۲۸) اور سورۂ توبہ (24،23)۔ 2۔ اُولٰٓىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ: یعنی یہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھنے والوں سے دوستی نہیں رکھتے، خواہ وہ کتنے قریبی رشتہ دار ہوں، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایمان نقش کر دیا ہے۔ اس کا مصداق صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں، کیونکہ انھوں نے ان تمام لوگوں سے دوستی اور دلی تعلق کا رشتہ کاٹ پھینکا تھا جو اللہ اور اس کے رسو ل سے مخالفت اور دشمنی رکھتے تھے، خواہ وہ ان کے باپ تھے یا بیٹے یا بھائی یا خاندان کے لوگ۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کفر کی حمایت میں مسلمانوں سے لڑنے والے قریب ترین رشتہ داروں کو بھی قتل یا قید کرنے سے دریغ نہیں کیا، خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی تھے یا کوئی اور رشتہ دار۔ جنگِ بدر میں جب قیدیوں کے متعلق مشورہ ہوا کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا قتل کر دیا جائے تو عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا تھا کہ ان کافر قیدیوں میں سے ہر ایک کو اس کے رشتہ دار کے سپرد کیا جائے، جسے وہ خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرے اور اللہ تعالیٰ کو عمر رضی اللہ عنہ ہی کا مشورہ پسند آیا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انفال (۶۷) کی تفسیر۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس اور عقیل بن ابی طالب( رضی اللہ عنھما ) اسیر ہوئے تو دوسرے قیدیوں کی طرح فدیہ دے کر رہا ہوئے۔ اسی طرح آپ کے داماد ابو العاص اس شرط پر رہا ہوئے کہ آپ کی بیٹی زینب رضی اللہ عنھا کو واپس بھجوا دیں گے۔ 3۔ وَ اَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ: یعنی انھیں اپنی طرف سے ایک عظیم روحانی قوت عطا فرما کر ان کی مدد فرمائی۔ 4۔ وَ يُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ....: یہ ہے جنتوں میں داخلے، اس میں ابدی قیام اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا وہ تصدیق نامہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حاصل ہوا۔ پھر ان لوگوں کی بدنصیبی کا کیا عالم ہو سکتا ہے جو ان سے دشمنی رکھتے اور ان کے بارے میں بدزبانی کرتے ہیں۔ 5۔ اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ ....: ’’ حِزْبُ اللّٰهِ ‘‘ خبر معرفہ ہونے سے حصر کا مفہوم پیدا ہو رہا ہے، یعنی اللہ کی جماعت اور گروہ صرف یہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کو اپنا بنا لیا اور اپنے ان عزیزوں سے بیگانہ ہو گئے جو اس سے اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے تھے۔ یاد رکھو! صرف اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔