سورة النسآء - آیت 22

وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جن عورتوں کو تمہارے باپ نکاح میں لا چکے ہیں ان سے نکاح نہ کرو مگر پہلے جو ہوچکا [٣٦] سو ہوچکا۔ یہ بڑی بے حیائی اور بیزاری کی بات ہے اور برا چلن ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ:جاہلیت کے دستور میں بیٹے کے لیے اپنے باپ کی منکوحہ (سوتیلی ماں) سے شادی کر لینا جائز تھا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ’’اہل جاہلیت ان رشتوں کو حرام سمجھتے تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے حرام کیا، سوائے باپ کی بیوی اور دو بہنوں کو جمع کرنے کے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں : ﴿وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ﴾ [النساء : ۲۲ ] اور ﴿وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ﴾ [ النساء : ۲۳ ] [ ابن جریر :4؍369 صحیح ] اللہ تعالیٰ نے اسے سخت حرام قرار دیا، حتیٰ کہ اگر باپ نے صرف عقد ہی کیا ہو تو بھی بیٹے کا اس سے نکاح حرام ہے۔ یہ سخت بے حیائی اور اللہ کی سخت ناراضگی کا باعث اور برا راستہ ہے کہ آج تم نے اپنے باپ کی منکوحہ سے نکاح کیا ہے، کل تمہاری منکوحہ سے تمھارا بیٹا نکاح کرے گا، اللہ تعالیٰ نے یہ راستہ ہی بند کر دیا۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ اپنے ماموں ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کی طرف بھیجا جس نے اپنے باپ کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کر لیا تھا کہ اسے قتل کر دیں اور اس کا مال لے لیں۔ [ أبو داؤد، الحدود، باب فی الرجل یزنی بحریمہ : ۴۴۵۷۔ ترمذی : ۱۳۶۲۔ نسائی : ۳۳۳۴۔ ابن ماجہ : ۲۶۰۷ و قال الألبانی صحیح ] معلوم ہوا ایسا شخص واجب القتل ہے۔