أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ اپنی سرگوشی سے پہلے صدقے ادا کرو [١٧]۔ پھر جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے بھی تمہیں (اس سے) معاف کردیا تو اب نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
1۔ ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍ: اس سے ظاہر ہے کہ اس حکم کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ علیحدگی میں گفتگو کا رجحان، جو بہت بڑھ گیا تھا، رک گیا۔ منافقین اپنے بخل کی وجہ سے رک گئے اور مخلص مسلمان، جو نادار تھے، غربت کی وجہ سے محتاط ہو گئے۔ 2۔ فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا وَ تَابَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کے نزول کے بعد کسی نے نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی رازدارانہ بات کرنے کی جرأت کی اور نہ اس مقصد کے لیے صدقہ دینے کی نوبت آئی، بلکہ انھیں احساس ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رازدارانہ گفتگو کے بارے میں ان کی روش اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی، اس لیے وہ اس پر نادم ہوئے اور اپنے رویے سے باز آگئے۔ ’’ وَ تَابَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر مہربانی فرمائی اور آپ سے مناجات سے پہلے صدقے کا حکم منسوخ کر دیا۔ 3۔ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ....: یعنی جب یہ وقتی حکم تم سے اٹھا لیا گیا تو ان احکام کی پابندی کرتے رہو جن پر عمل تمھارے لیے ہمیشہ لازم ہے۔ ان میں سب سے اہم نماز اور زکوٰۃ ہے، اس کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے ہر حکم کی اطاعت پر کار بند رہو اور یہ بات ہمیشہ پیشِ نظر رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمھارے ہر عمل سے پوری طرح باخبر ہے۔ 4۔ یہ حکم اگرچہ منسوخ ہو گیا مگر اس سے جو مقصود تھا وہ حاصل ہوگیا، مسلمان تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کے ادب کی وجہ سے علیحدگی میں لمبی گفتگو سے اجتناب کرنے لگے اور منافقین اس خوف سے کہ ہم نے ایسا کیا تو ہمارا نفاق کھل جائے گا اور ہم پہچان لیے جائیں گے۔