أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
کیا آپ دیکھتے نہیں کہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں موجود ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں مشورہ ہو تو چوتھا وہ (اللہ) نہ ہو یا پانچ آدمیوں میں مشورہ ہو تو ان کا چھٹا وہ نہ ہو۔ (مشورہ کرنے والے) اس سے کم ہوں یا زیادہ، وہ یقیناً ان کے ساتھ [٨] ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔ پھر وہ قیامت کے دن انہیں بتا (بھی) دے گا جو کچھ وہ کرتے رہے۔ بلاشبہ اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
1۔ اَلَمْ تَرَ: اس کے لیے دیکھیے سورۂ فیل کی پہلی آیت اور سورۂ نور کی آیت (۴۱) کی تفسیر۔ 2۔ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ: یعنی اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ہی کو نہیں بلکہ آسمان و زمین کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو جانتا ہے۔ 3۔ یہاں سے آیت (۱۹) تک مسلسل منافقین کے طرز عمل پر گرفت کی گئی ہے۔ 4۔ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ ....: ’’ نَجَا يَنْجُوْ نَجْوًا وَنَجْوٰي وَ نَاجٰي مُنَاجَاةً وَ نِجَاءً، الرَّجُلَ ‘‘ کسی آدمی سے اپنے دل کی بات دوسروں سے چھپا کر کرنا۔ ’’ نَجْوٰى ‘‘ اس سے اسم مصدر ہے، سرگوشی۔ زیادہ تر اس کا استعمال برے کاموں کی سرگوشیوں اور سازشوں کے لیے ہوتا ہے، مثلاً چوری، ڈاکے، قتل یا کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے خفیہ مشورہ کرنا۔ خیر کے کاموں میں اس کا استعمال کم ہوتا ہے، کیونکہ عموماً انھیں چھپانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔یعنی تھوڑے سے تھوڑے یا زیادہ سے زیادہ لوگوں کی کوئی مجلس، کوئی سرگوشی اور کوئی خفیہ سے خفیہ مشورہ نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ سے مخفی ہو اور اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ نہ ہو، بلکہ جو بھی تین آدمی چھپ کر مشورہ کر رہے ہوں ان کے ساتھ چوتھا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور جو بھی پانچ آدمی چھپ کر مشورہ کر رہے ہوں ان کے ساتھ چھٹا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور اس سے کم یا زیادہ جہاں بھی ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پوری طرح جاننے والا ہے۔ ’’ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ حدید (۴)کی تفسیر۔