وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِن نِّسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِّن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ۚ ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو میاں بیوی کے مل بیٹھنے سے پیشتر اسے ایک غلام آزاد کرنا ہوگا تمہیں اسی بات کی نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
1۔ وَ الَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَآىِٕهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا ....: ’’ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا ‘‘ کی تفسیر میں بعض حضرات نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں ان پر پہلی بار کوئی مؤاخذہ نہیں، البتہ اگر یہی بات دوبارہ کریں تو ان پر یہ کفارہ ہے، مگر یہ بات اس لیے درست نہیں کہ آیت جس واقعہ پر نازل ہوئی اس میں خاوند نے خولہ رضی اللہ عنھا کو ایک ہی بار ’’ أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِيِّ‘‘ کہا تھا۔ دوسری مرتبہ یا بار بار ایسا کہنے کا کہیں ذکر نہیں، اس لیے آیت کا وہی مطلب درست ہو گا جو صحیح حدیث کے مطابق ہو۔ چنانچہ ’’يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا‘‘ کا مطلب فراء اور بعض مفسرین نے تویہ لیا ہے کہ یہاں ’’لام‘‘ بمعنی ’’ عَنْ ‘‘ ہے، یعنی پھر وہ اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انھوں نے کہی ہے، تو ان پر یہ کفارہ ہے اور بعض نے فرمایا کہ یہاں ’’ لام ‘‘ ’’إِلٰی‘‘ کے معنی میں ہے، کلام میں کچھ عبارت حذف بھی ہے اور ’’ مَا قَالُوْا ‘‘ کامطلب ’’ مَا حَرَّمُوْا ‘‘ ہے : ’’ أَيْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ إِلٰي تَحْلِيْلِ مَا حَرَّمُوْا‘‘ ’’یعنی پھر دوبارہ لوٹیں اس کو حلال کرنے کی طرف جسے انھوں نے حرام کہا ہے۔‘‘ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں الفاظ میں ابہام کیوں رکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ماں کہنے کے بعد پھر اس سے بیوی والا معاملہ کرنا ایک قسم کی کراہت رکھتا ہے، اس لیے اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے صراحت کے بجائے کنایہ سے کام لیا ہے۔ 2۔ ظہار کا کفارہ مقرر کرنے سے ظاہر ہے کہ یہ طلاق نہیں بلکہ بیوی کو اپنے آپ پر حرام قرار دینے کے قبیل سے ہے۔ عام معاملات میں حلال کو اپنے آپ پر حرام کرنے کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے (دیکھیے تحریم : 2،1) مگر منکر و زور بات ہونے کی وجہ سے ظہار کا کفارہ سخت ہے۔ اب ظہار کرنے والے کے سامنے دو ہی صورتیں ہیں، اگر وہ بیوی سے قطع تعلق پر مصر ہے تو زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک اس کا انتظار کیا جائے گا کہ کفارہ ادا کر کے دوبارہ تعلق استوار کر لے (دیکھیے بقرہ : ۲۲۶) پھر اسے کہا جائے گا کہ یا اسے طلاق دو یا کفارہ ادا کر کے اسے بیوی بنا کر رکھو۔ پھر اگر وہ اپنی بات سے رجوع پر تیار ہو تو کفارہ بالترتیب تین چیزوں میں سے ایک چیز ہے، اگر آدمی کے پاس طاقت ہو تو ہاتھ لگانے یعنی جماع سے پہلے ایک گردن آزاد کرے۔ یہ شرط اس لیے لگائی ہے کہ بیوی کے پاس جانے کی رغبت میں اس کے لیے اتنا بھاری جرمانہ آسان ہو جائے گا۔ 3۔ فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّتَمَآسَّا: ’’ رَقَبَةٍ ‘‘ کا معنی گردن ہے، مراد لونڈی یا غلام ہے، یعنی جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے، تو ظہار کا کفارہ یہ ہے کہ اگر آدمی کے پاس طاقت ہو تو ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک لونڈی یا غلام آزاد کرے۔ پہلے کی شرط اس لیے لگائی ہے کہ بیوی کے پاس جانے کی رغبت میں اس کے لیے اتنا بھاری جرمانہ آسان ہو جائے گا۔ 4۔ ذٰلِكُمْ تُوْعَظُوْنَ بِهٖ: یعنی ہاتھ لگانے سے پہلے گردن آزاد کرنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ اس سے تمھیں آئندہ کے لیے نصیحت ہوگی کہ ایسا کام نہیں کیا کرتے۔ 5۔ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ: یعنی اگر تم ظہار کے بعد گردن آزاد کیے بغیر ایک دوسرے کو ہاتھ لگاؤ گے تو کسی اور کو خبر ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ تمھارے ہر کام سے پوری طرح باخبر ہے، تم نہ اس سے چھپ سکتے ہو اور نہ اس کی گرفت سے بچ سکتے ہو۔ 6۔ بیوی کو ماں کی طرح اپنے آپ پر حرام ٹھہرانے پر جو کفارہ ہے اگر اسے بہن یا بیٹی یا کسی بھی ایسی عورت کی طرح حرام کہہ دے جس سے نکاح حرام ہے تو اس پر بھی وہی کفارہ ہے، کیونکہ نکاح کی حرمت میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں، اس لیے جو حکم ماں کہنے کا ہے وہی سب کا ہو گا۔