سورة النسآء - آیت 20

وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ۚ أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو اور تم نے اسے خواہ ڈھیر سا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس [٣٥] نہ لو۔ کیا تم اس پر بہتان رکھ کر اور صریح گناہ کے مرتکب ہو کر اس سے مال لینا چاہتے ہو؟

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ:یہ عورتوں سے متعلق چوتھا حکم ہے۔ جب پہلی آیات میں بیان فرمایا کہ اگر صحیح طریقے سے ساتھ نہ رہنے کی وجہ عورت کی جانب سے ہو تو مہر واپس لینے کے لیے اسے تنگ کرنا جائز ہے، یہاں بتایا کہ جب زیادتی شوہر کی جانب سے ہو تو پھر عورت سے فدیۂ طلاق لینا ممنوع اور حرام ہے۔ یعنی بلاوجہ تنگ کر کے ان سے مہر واپس لو گے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی بہتان باندھ کر مہر واپس لے رہا ہے اور اس صورت میں تم ان پر دوہرا ظلم کرو گے، ایک بلاوجہ تنگ کرنا اور دوسرا مہر واپس لینا، اس لیے اسے ”اِثْمًا مُّبِيْنًا“ فرمایا۔ وَ اٰتَيْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ مہر کی کوئی حد معین نہیں ہے، خاوند اپنی حیثیت کے مطابق جتنا مہر دینا چاہے دے سکتا ہے۔ اس مقام پر امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مہر زیادہ رکھنے سے منع کرنے پر ایک عورت کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے جس نے زیادہ مہر کے جواز کے لیے یہ آیت پڑھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عمر سے ہر شخص زیادہ سمجھ دار ہے اور اس سے کئی دشمنان صحابہ عمر رضی اللہ عنہ پر طعن کرتے ہیں۔ عورت کا واقعہ کسی صحیح سند سے ثابت نہیں، تفصیل کے لیے دیکھیں ارواء الغلیل (۱۹۲۷)۔ وَ كَيْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَ قَدْ اَفْضٰى:اس سے معلوم ہوا کہ جماع کے بعد دیا ہوا مہر واپس نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ آپ نے لعان کرنے والے مرد کے مہر واپس لینے کے مطالبے پر فرمایا تھا : ’’اگر تم نے اپنی بیوی پر زنا کی بات سچ کہی ہے تو مہر اس کے عوض ہے جو تم نے اس کی شرم گاہ اپنے لیے حلال کی اور اگر اس پر جھوٹ کہا ہے تو پھر تو (مہر کی واپسی) زیادہ ہی بعید ہے۔‘‘ [ بخاری، الطلاق، باب قول الإمام للمتلاعنین… ۵۳۱۲۔ مسلم : ۵؍۱۴۹۳، عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما ] وَ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا: ’’ پختہ عہد‘‘ سے مراد عقد نکاح ہے، یعنی تمھارا یہ کہنا کہ میں نے فلاں عورت سے نکاح قبول کیا۔ اب طلاق کی صورت میں دو ہی راستے ہیں : ﴿فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ﴾ [ البقرۃ : ۲۲۹ ] اور ظاہر ہے کہ طلاق دے کر مہر نہ دینا ان دونوں میں سے ایک بھی نہیں۔