لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ
بلاشبہ ہم نے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔ اور لوہا (بھی)[٤٢] نازل کیا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لئے اور بھی فائدے ہیں اور اس لئے بھی کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ اسے دیکھے بغیر کون اس کی [٤٣] اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے اور اللہ بڑا طاقتور ہے اور زبردست ہے۔
1۔ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ ....: اوپر کی آیات میں جس خرچ کی تاکید کی گئی ہے اس کا تعلق جہاد سے ہے۔ کفار اور اہلِ کتاب کو جب بدر اور دوسرے مقامات پر شکستوں پر شکستیں ہوئیں تو انھوں نے پروپیگنڈا شروع کر دیا جو آج تک جاری ہے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول اور اسلام اللہ کا دین کیسے ہو سکتے ہیں؟ ان کے نزدیک تو سب سے بڑی نیکی جنگ اور خون ریزی ہے، بھلا اللہ کے رسولوں اور اس کے نیک بندوں کا خون ریزی سے کیا تعلق؟ وہ تو امن و سلامتی والے ہوتے ہیں اور دنیا کے دھندوں سے الگ تھلگ رہبانیت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں تین باتیں واضح فرمائیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول بھیجے انھیں واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل فرمائی، تاکہ لوگ راہِ راست پر چل سکیں اور باہمی معاملات میں عدل و انصاف پر قائم رہیں۔ دوسری یہ کہ عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ ظلم و جور کا خاتمہ کیا جائے، جو قوت و سلطنت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے کتاب و میزان کے ساتھ لوہا اتارا، جس میں دوسرے بے شمار فائدوں کے ساتھ یہ فائدہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے سے جہاد ہوتا ہے، جس کے ساتھ عدل و انصاف قائم ہوتا ہے اور ایمان والوں کا امتحان ہوتا ہے کہ اللہ کے دین کی مدد کرنے والے مومن کون ہیں اور اس سے جان چھڑانے والے منافق کون ہیں۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ نوح اور ابراہیم علیھما السلام اور ان کی اولاد میں جتنے رسول آئے سب کا مقصد حق اور عدل کا قیام ہی تھا۔ عیسیٰ علیہ السلام بھی انھی کے طریقے پر تھے، یہود کی سنگ دلی کے مقابلے میں ان کے پیروکاروں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر رافت و رحمت رکھی تھی۔ اس نرمی کا بہانہ بنا کر ان کے بعض نام لیواؤں نے رہبانیت اختیار کی اور جہاد چھوڑ دیا، حالانکہ یہ ان کی اپنی ایجاد کردہ بدعت تھی، اللہ کا حکم ہرگز نہ تھا۔ مسلمانوں میں ترکِ جہاد کا باعث بھی نصرانیوں کی تقلید میں یہی رہبانیت بنی۔ 2۔ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِيْزَانَ ....: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ شوریٰ کی آیت (۱۷) کی تفسیر۔ 3۔ وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ: لوہا اگرچہ زمین سے نکلتا ہے مگر اس نعمت کی عظمت کا احساس دلانے کے لیے’’ اَنْزَلْنَا ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جیسا کہ چوپاؤں کے متعلق فرمایا : ﴿ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ﴾ [ الزمر : ۶ ] ’’اور اس نے تمھارے لیے چوپاؤں میں سے آٹھ قسمیں (نر و مادہ) اتاریں۔‘‘ اس میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہر نعمت کا اصل سرچشمہ آسمان ہی ہے، جہاں سے اللہ کا حکم صادر ہوتا ہے تو ہر چیز وجود میں آتی ہے اور اس تعلیم کی طرف بھی اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ بندوں کے دلوں میں لوہے کو حاصل کرنے اور اس کے استعمال کے طریقوں کا القا فرماتا ہے۔ 4۔ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ: اس میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ لوہے کے دوسرے ’’منافع‘‘ کو بعد میں ذکر فرمایا ہے اور سخت لڑائی کا ذکر پہلے فرمایا ہے۔ اس سے جہاد اور اسلحہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ منافع سے مراد وہ بے شمار مشینیں، آلات اور سواریاں ہیں جو ایجاد ہو چکی ہیں اور آئندہ ہوں گی۔ 5۔ وَ لِيَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالْغَيْبِ: جہاد کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو ایک لمحے میں کفار کو نیست و نابود کر سکتا ہے، مگر وہ جہاد کے ذریعے سے اپنے بندوں کا امتحان کرتا ہے کہ اسے دیکھے بغیر کون اس کی خاطر لڑتا اور اس کے دین کی مدد کرتا ہے اور کون پیچھے رہتا ہے۔ ’’ وَ لِيَعْلَمَ اللّٰهُ ‘‘ کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۴۰ تا ۱۴۲) اور سورۂ عنکبوت (۳) کی تفسیر۔ 6۔ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ: یعنی اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جہاد کا حکم اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں دیا، بلکہ انھی کے فائدے کے لیے اور امتحان کے لیے دیا ہے، کیونکہ وہ تو بڑی قوت والا اور سب پر غالب ہے۔