الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ۗ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
جو خود بھی بخل کرتے اور لوگوں کو بخل کا حکم دیتے ہیں اور جو منہ موڑے تو اللہ تو ہے ہی بے نیاز اور اور وہ اپنی ذات میں محمود ہے
1۔ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ وَ يَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ: مراد اس سے منافقین ہیں جو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو چکے تھے، مگر جب جہاد کا موقع آتا تو جنگ میں شرکت سے گریز کرتے اور خرچ کرنے سے بخل کرتے، بلکہ اپنے ہم نواؤں کو بھی خرچ کرنے سے منع کرتے تھے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ﴿ هُمُ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰى مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰى يَنْفَضُّوْا وَ لِلّٰهِ خَزَآىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَفْقَهُوْنَ﴾ [المنافقون:۷] ’’یہ وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو اللہ کے رسول کے پاس ہیں ، یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں، حالانکہ آسمانوں کے اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں اور لیکن منافق نہیں سمجھتے ۔‘‘ 2۔ وَ مَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ: ضمیر فصل ’’ هُوَ ‘‘ لانے سے اور خبر ’’ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ‘‘ پر الف لام لانے سے حصر پیدا ہو رہا ہے کہ اللہ ہی غنی و حمید ہے، کوئی اور نہیں۔ یعنی جو شخص اتنی نصیحت سن کر بھی جہاد میں خرچ کرنے سے منہ موڑے اور سمجھے کہ اس کے خرچ نہ کرنے سے اسلام اور مسلمانوں کا کوئی نقصان ہو جائے گا تو اس کا یہ خیال باطل ہے، کیونکہ آسمان و زمین کے تمام خزانوں کا مالک تو صرف اللہ تعالیٰ ہے (جیسا کہ پچھلے فائدے میں گزرا) اور غنی وہ اکیلا ہی ہے، دوسرے سب اس کے محتاج ہیں، جو کوئی بھی خرچ کرتا ہے اس کے دیے میں سے خرچ کرتا ہے اور اپنے فائدے کے لیے خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے خرچ کرنے سے بے نیاز ہے۔ غنی کے ساتھ حمید کی صفت بیان فرمائی، کیونکہ بہت سے اغنیاء عارضی غنی کے مالک ہونے کے باوجود اپنی غنی کو مذموم کاموں میں استعمال کرتے ہیں مگر اللہ ایسا غنی ہے کہ وہ ہر مذموم صفت اور فعل سے پاک ہے اور تمام کمالات اور خوبیوں کا مالک ہے۔