يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ
منافق مومنوں کو پکار کر کہیں گے :’’کیا ہم (دنیا میں) تمہارے ساتھ [٢٣] نہ تھے؟‘‘ (مومن) کہیں گے، کیوں نہیں، لیکن تم نے تو خود اپنے آپ کو فتنہ [٢٤] میں ڈالا۔ اور (موقع کی) انتظار کرتے رہے اور شک [٢٥] میں پڑے رہے اور جھوٹی آرزوئیں تمہیں دھوکہ میں ڈالے رہیں تاآنکہ اللہ کا حکم آپہنچا [٢٦] اور (اس وقت تک) بڑا دھوکہ باز (شیطان) اللہ کے بارے میں تمہیں دھوکا ہی دیتا رہا
1۔ يُنَادُوْنَهُمْ اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ: منافق انھیں پکار پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے، کیا ہم کلمہ نہیں پڑھتے تھے، کیا ہم تمھارے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے تھے، زکوٰۃ اور حج ادا نہیں کرتے تھے اور ہر کام میں تمھارے ساتھ نہیں ہوتے تھے ؟ اب تم ہمیں ساتھ کیوں نہیں لے جاتے؟ 2۔ قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ: یعنی تم مسلمان ہو کر بھی نہ دل سے مسلمان ہوئے اور نہ پوری طرح ایک طرف ہو کر مسلمانوں کے ساتھی بنے، بلکہ تم نے اپنے آپ کو نفاق کے فتنے ہی میں مبتلا رکھا۔ 3۔ وَ تَرَبَّصْتُمْ: اور تم انتظار میں رہے کہ کب مسلمانوں پر کوئی آفت آتی ہے۔ 4۔ وَ ارْتَبْتُمْ: یہ ’’رَيْبٌ‘‘ سے باب افتعال ’’ اِرْتَابَ يَرْتَابُ اِرْتِيَابًا‘‘ کے ماضی معلوم کا صیغہ ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان و یقین کے بجائے تم شک اور تذبذب میں رہے۔ 5۔ وَ غَرَّتْكُمُ الْاَمَانِيُّ: ’’ الْاَمَانِيُّ ‘‘ ’’ أُمْنِيَّةٌ ‘‘ کی جمع ہے، یعنی تمھیں ان آرزوؤں نے دھوکے میں رکھا کہ بس چند دن میں مسلمان تباہ ہو جائیں گے اور اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ 6۔ حَتّٰى جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ: حتیٰ کہ تمھیں موت آگئی اور توبہ اور اخلاصِ عمل کا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ 7۔ وَ غَرَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ: ’’ الْغَرُوْرُ ‘‘ سے مراد شیطان ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ فاطر ( 6،5)۔