وَأَمَّا إِن كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِينَ الضَّالِّينَ
اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہوں سے ہوگا
وَ اَمَّا اِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِيْنَ الضَّآلِّيْنَ ....: ’’نُزُلٌ‘‘ مہمانی۔ (دیکھیے کہف : ۱۰۲) ’’ تَصْلِيَةُ ‘‘ ’’صَلِيَ يَصْلٰي‘‘ (ع) سے باب تفعیل کا مصدر ہے، داخل کرنا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا ایک حصہ آیت (89،88) کی تفسیر میں گزر چکا ہے، اس میں کفار کی موت کا بھی حال بیان ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ السُّوْءُ قَالَ اخْرُجِيْ أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيْثَةُ ! كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيْثِ، اخْرُجِيْ ذَمِيْمَةً وَأَبْشِرِيْ بِحَمِيْمٍ وَغَسَّاقٍ وَآخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ فَلاَ يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذٰلِكَ حَتّٰی تَخْرُجَ ثُمَّ يُعْرَجُ بِهَا إِلَی السَّمَاءِ فَلاَ يُفْتَحُ لَهَا فَيُقَالُ مَنْ هٰذَا؟ فَيُقَالُ فُلاَنٌ، فَيُقَالُ لاَ مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِيْثَةِ كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيْثِ ارْجِعِيْ ذَمِيْمَةً فَإِنَّهَا لاَ تُفْتَحُ لَكِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَيُرْسَلُ بِهَا مِنَ السَّمَاءِ ثُمَّ تَصِيْرُ إِلَی الْقَبْرِ )) [ابن ماجہ، الزھد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ: ۴۲۶۲، وقال الألباني صحیح ] ’’اور جب آدمی برا ہو تو اسے (فرشتہ) کہتا ہے : ’’نکل اے خبیث جان جو خبیث جسم میں تھی! اور بشارت سن کھولتے ہوئے پانی اور پیپ کی اور دوسری اس کی ہم شکل کئی قسموں کی۔‘‘ پھر اسے مسلسل یہی کہا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ نکل آتی ہے۔ پھر اسے اوپر آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے، مگر اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا اور کہا جاتا ہے : ’’یہ کون ہے؟‘‘ بتایا جاتا ہے کہ یہ فلاں ہے تو کہا جاتا ہے : ’’اس خبیث جان کو جو خبیث جسم میں تھی کوئی مرحبا نہیں، مذمت کی ہوئی حالت میں واپس لوٹ جا، کیونکہ تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔‘‘ پھر اسے آسمان سے چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھروہ قبر کی طرف لوٹ جاتی ہے۔‘‘