فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ
پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ جب جان ہنسلی کو پہنچ جاتی ہے
فَلَوْ لَا اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ ....: ’’مَدِيْنِيْنَ‘‘ ’’دَانَ يَدِيْنُ دَيْنًا‘‘ (جزا دینا، مالک ہونا، حساب لینا، حاکم ہونا) سے اسم مفعول ’’مَدِيْنٌ‘‘ کی جمع ہے جو اصل میں ’’مَدْيُوْنٌ‘‘ تھا، بدلا دیے گئے، محاسبہ کیے گئے، محکوم، مملوک۔ ان آیات میں ’’ فَلَوْ لَا ‘‘ دو دفعہ آیا ہے اور دونوں کی جزا ’’ تَرْجِعُوْنَهَا اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ‘‘ ہے۔ ان آیات میں نزع کے عالم کا نقشہ کھینچ کر قیامت کے منکروں سے کہا گیا ہے کہ ایسا کیوں نہیں کہ مرتے وقت جب جان حلق تک آ پہنچتی ہے اور تم پاس بیٹھے مرنے والے کو دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم تم سے زیادہ اس مرنے والے کے قریب ہوتے ہیں، تو پھر اگر تم کسی کے محکوم نہیں اور نہ تم سے کوئی محاسبہ کرنے والا ہے اور تم خود ہی ہر طرح صاحب اختیار ہو، تو اگر تم سچے ہو تو نکلنے والی اس جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟ تمھاری بے بسی سے ثابت ہوا کہ تم سب اللہ تعالیٰ کے مملوک اور اس کے حکم کے پابند ہو، جب وہ لے جانا چاہے گا لے جائے گا اور جب زندہ کر کے محاسبے کے لیے اپنے سامنے کھڑا کرنا چاہے گا کر دے گا۔ اس لیے تمھاری بھلائی اسی میں ہے کہ اس کی توحید پر، اس کے رسول پر اور یوم قیامت پر ایمان لے آؤ، تاکہ تمھیں اس دن شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ جان نکلنے کے وقت انسان کی حالت اور اس کے غم گساروں کی بے بسی کا نقشہ سورۂ قیامہ کی آیات (۲۶ تا ۳۰) میں بھی خوب کھینچا گیا ہے۔