فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ
(ایک تو) دائیں ہاتھ والے ہوں گے، ان دائیں ہاتھ والوں [٥] کے کیا ہی کہنے
فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِ مَا اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِ ....: ’’أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ‘‘ مبتدا ہے اور ’’ مَا اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِ ‘‘ جملہ ہو کر خبر ہے۔ دائیں ہاتھ والے جنھیں دائیں ہاتھ میں اعمال نامے دیے جائیں گے۔ (دیکھیے حاقہ : ۱۹) استفہام سے مراد ان کی عظمتِ شان کا اظہار ہے، یعنی وہ اتنی بلند شان والے ہیں کہ ان کے متعلق سوال کیا جاتا ہے کہ ’’ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ ‘‘ کیا ہیں۔ یہاں ان کی شان اجمالاً بیان ہوئی ہے، تفصیل آگے ’’ وَ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ مَا اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ ‘‘ میں آ رہی ہے۔ اسی طرح ’’ وَ اَصْحٰبُ الْمَشْـَٔمَةِ مَا اَصْحٰبُ الْمَشْـَٔمَةِ ‘‘ میں بائیں ہاتھ والوں کی بری حالت کا اظہار مقصود ہے کہ وہ کیا ہی بری ہے، تفصیل اس کی ’’ وَ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ مَا اَصْحٰبُ الشِّمَالِ ‘‘ میں آ رہی ہے۔