وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ
اور سمندر میں جو جہاز پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے ہیں یہ سب اسی [١٧] کے ہیں
وَ لَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَـٰٔتُ فِي الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ ....: ’’ الْمُنْشَـٰٔتُ ‘‘ ’’أَنْشَأَ يُنْشِئُ‘‘ (افعال) (بنانا) سے اسم مفعول ہے، پہاڑوں جیسے لمبے چوڑے اور کئی منزلہ اونچے بحری جہاز ’’جو بنائے گئے ہیں۔‘‘ اس میں بحری جہاز بنانے کا طریقہ سکھانے کی نعمت کی یاد دہانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سکھانے سے انسان چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑتے ہوئے کتنا بڑا بحری جہاز بنا لیتا ہے۔ طبری نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد سے ’’ الْمُنْشَـٰٔتُ ‘‘ کا ایک اور معنی بھی نقل فرمایا ہے : ’’مَا رُفِعَ قِلَعُهٗ مِنَ السُّفُنِ فَهِيَ مُنْشَئَاتٌ وَ إِذَا لَمْ يُرْفَعْ قِلَعُهَا فَلَيْسَتْ بِمُنْشَئَاتٍ‘‘ ’’وہ جہاز جن کے بادبان اٹھائے ہوئے ہوں وہ ’’ مُنْشَئَاتٌ‘‘ ہیں اور جب ان کے بادبان اٹھائے ہوئے نہ ہوں تو وہ ’’ مُنْشَئَاتٌ‘‘ نہیں ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ انجن کی ایجاد سے پہلے بحری جہازوں کا سفر موافق ہواؤں کے ذریعے سے ہوتا تھا۔ چنانچہ اونچے اونچے ستونوں کے ساتھ کپڑے باندھ دیے جاتے، ہوا انھیں دھکیلتی ہوئی منزلِ مقصود پر پہنچا دیتی، انھیں بادبان کہا جاتا تھا۔ ’’باد‘‘ ہوا کو کہتے ہیں۔ اگر کہیں رکنا مقصود ہوتا تو وہ کپڑے اکٹھے کر دیے جاتے، اسے بادبان گرانا کہا جاتا تھا۔ اس معنی کے لحاظ سے بحری جہازوں پر اللہ تعالیٰ کی ایک اور نعمت کا ذکر ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ شوریٰ (۳۳) کی تفسیر۔ ’’ وَ لَهُ الْجَوَارِ ‘‘ میں ’’ لَهُ ‘‘ کو پہلے لانے سے تخصیص پیدا ہو گئی کہ یہ جہاز، ان کے بنانے کا طریقہ سکھانا، ہزاروں ٹن وزنی ہونے کے باوجود انھیں سمندر کے سینے پر قائم رکھنا اور ڈوبنے نہ دینا اور لوگوں کو اور ان کے سامان کو دور دراز ملکوں تک پہنچانا وغیرہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔