فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پس (اے جن و انس)! تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں [١١] کو جھٹلاؤ گے؟
1۔ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ:’’ اٰلَآءِ ‘‘ ’’إِلًي‘‘ کی جمع ہے جو اصل میں ’’إِلَيٌ‘‘ ہے، جیسے ’’مِعًي‘‘ (انتڑی) کی جمع ’’ أَمْعَاءٌ ‘‘ ہے۔ اس کا ایک معنی نعمت ہے۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر نقل فرمائی ہے : ’’فَبِأَيِّ نِعْمَةِ اللّٰهِ تُكَذِّبَانِ‘‘ ’’تم دونوں اللہ تعالیٰ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟‘‘ اور ایک معنی قدرت ہے، چنانچہ طبری ہی نے ابنِ زید کی تفسیر نقل فرمائی ہے، انھوں نے فرمایا : ’’ اَلْآلَاءُ اَلْقُدْرَةُ، فَبِأَيِّ قُدْرَةِ اللّٰهِ تُكَذِّبَانِ‘‘ یعنی ’’تم دونوں اللہ کی کس کس قدرت کو جھٹلاؤ گے؟‘‘ 2۔ مفسر سلیمان الجمل نے فرمایا ، نعمتوں کے بیان اور ان کی یاد دہانی کے لیے یہ آیت یہاں اکتیس (۳۱) مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی نے کسی پر احسان کیے ہوں اور وہ ان احسانوں کو نہ مانتا ہو تو اسے کہتا ہے، کیا تو فقیر نہیں تھا؟ میں نے تجھے مال دیا، کیا تو اس کا انکار کرتا ہے؟ کیا تو ننگا نہیں تھا؟ میں نے تمھیں لباس پہنایا، کیا تو اس کا انکار کرتا ہے…؟ اللہ تعالیٰ نے آٹھ مرتبہ یہ آیت ان آیات کے بعد دہرائی جن میں اس کی مخلوق کے عجائب اور ان کی ابتدا و انتہا کا ذکر ہے، پھر جہنم کے دروازوں کی تعداد کے مطابق سات مرتبہ ان آیات کے بعد دہرائی ہے جن میں آگ اور اس کی ہولناکیوں کا بیان ہے۔ پھر جنت کے دروازوں کی تعداد کے مطابق آٹھ مرتبہ دو جنتوں کے وصف میں اسے دہرایا ہے۔ پھر ان دو جنتوں کے علاوہ دوسری دو جنتوں کے وصف میں آٹھ مرتبہ دہرایا ہے۔ تو جو شخص پہلی آٹھ چیزوں کا عقیدہ و یقین رکھے گا اور ان کے تقاضے پر عمل کرے گا وہ اللہ کی طرف سے ان آٹھ نعمتوں کا مستحق ہو گا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے ساتھ اسے پہلی ساتوں سے محفوظ رکھیں گے۔ (ملخصاً) 3۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس سورت کی کئی آیات میں جہنم اور عذاب کا بھی ذکر ہے، تو ان کے بعد ’’ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ‘‘ کہنے میں کون سی نعمت یاد دلائی جا رہی ہے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ ’’ اٰلَآءِ ‘‘ کا معنی قدرت بھی ہے، جیسا کہ اوپر گزرا۔ تو اللہ تعالیٰ کی صفات اور جہنم و عذاب کے بیان کے بعد کہا جا رہا ہے کہ تم دونوں اللہ تعالیٰ کی کون کون سی قدرت کو جھٹلاؤ گے؟ اور ایک جواب یہ ہے کہ عذاب آنے سے پہلے اس کے متعلق خبردار کر دینا بہت بڑی نعمت ہے، کیونکہ اس سے بندہ اس سے بچنے کی جدوجہد کر سکتا ہے، اس لیے فرمایا کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟