وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ
اور وزن کو انصاف سے تولو اور ترازو میں ڈنڈی [٧] نہ مارو
1۔ وَ اَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ ....: ’’ اَلْقِسْطُ‘‘ عدل، انصاف۔ ان آیات میں ’’ الْمِيْزَانَ ‘‘ کا لفظ تین دفعہ آیا ہے، پہلا آلہ (ترازو) کے معنی میں ہے، دوسرا مصدر (وزن) کے معنی میں اور تیسرا اسم مفعول (مَوْزُوْنٌ) کے معنی میں۔ (ابن عادل، اللباب) اس سے ماپ تول اور دوسرے پیمانوں میں انصاف کی تاکید مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب کا ایک بہت بڑا باعث ماپ تول میں کمی بیشی کو قرار دیا ہے اور قرآن مجید کی ایک سورت کا نام ’’مطففين‘‘ ہے جس میں کمی بیشی کرنے والوں کے لیے ’’ویل‘‘ کی وعید سنائی ہے۔ 2۔ بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ ’’ وَ وَضَعَ الْمِيْزَانَ ‘‘ میں ’’ وَ اَقِيْمُوا الْوَزْنَ ‘‘ سے مراد عدل ہے، جس کی ایک شاخ ماپ تول میں عدل ہے۔ اس لیے ’’ وَ وَضَعَ الْمِيْزَانَ ‘‘ میں عام عدل کا ذکر ہے اور ماپ تول کی اہمیت کے پیش نظر ’’ اَقِيْمُوا الْوَزْنَ ‘‘ (تول سیدھا رکھو) میں عدل کی صورتوں میں وزن کا خاص طور پر الگ ذکر فرمایا ہے۔