الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ
سورج اور چاند ایک مقررہ حساب سے چل [٤] رہے ہیں۔
اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ: ’’حُسْبَانٌ‘‘ ’’حَسِبَ يَحْسِبُ‘‘ کا مصدر ہے، جس میں ’’الف نون‘‘ زیادہ کر دیا گیا ہے، جس سے معنی میں اضافہ ہو گیا ہے، جیسے ’’طُغْيَانٌ‘‘ ’’رُجْحَانٌ‘‘ اور ’’كُفْرَانٌ‘‘ وغیرہ میں ہے۔ یعنی سورج اور چاند نہایت محکم اور باریک حساب کے ساتھ چل رہے ہیں، آسمان کے نیچے ثوابت و سیار ستاروں کا کوئی شمار نہیں، جن میں سے بعض سورج اور چاند سے بھی ہزاروں گنا بڑے ہیں۔ ان کی پیدائش اور گردش میں اللہ تعالیٰ کی بے حساب حکمتوں کا بھی کچھ شمار نہیں، مگر خاص طور پر سورج اور چاند کا ذکر اس لیے فرمایا کہ نمایاں نظر آنے کی وجہ سے زمین کے رہنے والوں کے معاملات کا ان دونوں کے ساتھ زیادہ تعلق ہے۔ مفسر کیلانی لکھتے ہیں: ’’سورج اور چاند کا ایک مقررہ رفتار کے مطابق چلنا، پھر اس میں ایک لحظہ کی بھی تاخیر نہ ہونا انسان کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ سورج سے دن رات ادل بدل کر آتے رہتے ہیں اور موسموں میں بتدریج تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ نمازوں کے اوقات کا تعلق بھی سورج سے ہے، فصلوں کے پکنے کا انحصار بھی سورج سے ہے۔ چاند سے ہمیں رات کو روشنی حاصل ہوتی ہے، ہم مہینوں اور سالوں کا حساب رکھ سکتے ہیں اور یہی حقیقی اور فطری تقویم (کیلنڈر) ہے۔ اسی لیے رمضان کے روزے، حج، عیدین اور دوسری قابلِ شمار مدتوں، مثلاً مدتِ حمل، مدتِ رضاعت و عدت وغیرہ کا تعلق چاند سے ہوتا ہے۔ پھر سورج اور زمین کے درمیان ایسا مناسب فاصلہ رکھا گیا ہے کہ اس میں کمی بیشی سے اس زمین پر انسان اور دوسرے سب جانداروں کی زندگی ہی ناممکن ہے اور سب فائدے اسی صورت میں حاصل ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان عظیم الجثہ کروں کو ایسے طبعی قوانین میں جکڑ رکھا ہے جس سے وہ ادھر ادھر ہو ہی نہیں سکتے اور اپنے مقرر مداروں پر مقررہ رفتار سے ہمہ وقت محو گردش رہتے ہیں۔‘‘( تیسیر القرآن) مزید دیکھیے سورۂ انعام (۹۶) اور سورۂ بنی اسرائیل (۱۲)۔