خَلَقَ الْإِنسَانَ
انسان کو پیدا [٢] کیا
خَلَقَ الْاِنْسَانَ: یہ بھی لفظ ’’ اَلرَّحْمٰنُ ‘‘ کی خبر ہے اور اسے فعل کی صورت میں لانے سے تخصیص کا فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں بھی دو باتیں بیان ہوئی ہیں، ایک یہ کہ رحمان ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے، سو عبادت بھی اس اکیلے کی ہے۔ دوسری انسان کو پیدا کرنے کی نعمت کا بیان ہے۔ زمین و آسمان میں موجود دوسری تمام نعمتوں کا ذکر اس کے بعد فرمایا ہے، کیونکہ وہ سب انسان کی پیدائش کے بعد ہیں، اگر وہ موجود ہی نہ ہو تو کسی نعمت کا اسے کیا فائدہ۔ البتہ تعلیم قرآن کی نعمت کا ذکر اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلانے کے لیے اس سے بھی پہلے فرما دیا۔ ’’رحمن ہی نے انسان کو پیدا فرمایا‘‘ یہ ایسی بات نہیں جسے مشرکین نہ مانتے ہوں، مگر اسے صریح لفظوں میں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین فی الحقیقت یہ بات نہیں مانتے، کیونکہ اگر مانتے ہوتے تو کسی غیر کی پرستش کیوں کرتے؟