إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ
بلاشبہ ہم نے ہر چیز [٣٤] کو ایک مقدار سے پیدا کیا ہے
1۔ اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ:’’ بِقَدَرٍ ‘‘ پر تنوین تعظیم کی ہے۔ یعنی اگر انھیں شبہ ہے کہ قیامت ابھی واقع کیوں نہیں ہوتی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ہر چیز کو اپنے عظیم مستحکم اندازے کے ساتھ پیدا کیا ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا، کیونکہ ہمیں گزشتہ کی طرح آئندہ کا بھی پورا علم ہے کہ کوئی بھی چیز کس طرح ہو گی، کتنی ہو گی اور کب ہو گی؟ غرض ہم نے اس کی شکل و صورت، زمان و مکاں، قوت و ضعف وغیرہ ہر چیز کا اندازہ طے کر دیا ہے، مثلاً جس کے قد کا اندازہ چھ فٹ طے کیا ہے وہ چھ فٹ ہی ہو گا، جسے سعید طے کر دیا ہے وہ سعید ہو گا اور جسے شقی طے کر دیا ہے وہ شقی ہو گا، جس کا جتنا وقت مقرر کیا ہے اس سے ایک لمحہ آگے پیچھے نہیں ہو گا۔ چنانچہ ہم نے قیامت کا بھی ایک وقت مقرر کر رکھا ہے، نہ وہ اس سے پہلے آسکتی ہے نہ اس سے ایک لمحہ کی تاخیر ہو گی۔ تمھارے مطالبے کے مطابق اگر وہ ابھی واقع نہیں ہوتی تو یہ مت سمجھو کہ وہ واقع ہو گی ہی نہیں۔ اس آیت سے ملتی جلتی یہ آیت ہے : ﴿وَ كُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ﴾ [ الرعد: ۸ ] ’’اور ہر چیز اس کے ہاں ایک اندازے سے ہے۔ ‘‘ اور سورۂ مرسلات کی یہ آیت : ﴿فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ ﴾ [ المرسلات : ۲۳] ’’پس ہم نے اندازہ کیا تو ہم اچھے اندازہ کرنے والے ہیں۔‘‘ 2۔ ’’قَدَرٌ‘‘ سے مراد تقدیر ہے جو ان چھ چیزوں میں شامل ہے جن پر ایمان کا دارومدار ہے۔ حدیثِ جبریل میں ہے کہ جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے ایمان کے متعلق بتائیے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ )) [ مسلم، الإیمان، باب بیان الإیمان و الإسلام والإحسان ....: ۸ ] ’’یہ کہ تو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور تقدیر اچھی یا بری، اس پر ایمان لائے۔‘‘ یعنی اچھی تقدیر کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور بری کا بھی، مجوس کی طرح نہیں جو دو خالق مانتے ہیں، ایک خالقِ خیر اور ایک خالقِ شر۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : (( كَتَبَ اللّٰهُ مَقَادِيْرَ الْخَلاَئِقِ قَبْلَ أَنْ يَّخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِيْنَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَعَرْشُهُ عَلَی الْمَاءِ)) [ مسلم، القدر، باب حجاج آدم و موسٰی صلی اللّٰہ علیہما وسلم: ۲۶۵۳ ] ’’اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تقدیریں آسمان و زمین پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیں۔‘‘ فرمایا : ’’اور ( اس وقت)اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كُلُّ شَيْءٍ بِقَدَرٍ حَتَّی الْعَجْزِ وَالْكَيْسِ )) [مسلم، القدر، باب کل شيء بقدر : ۲۶۵۵ ] ’’ہر چیز تقدیر سے ہے، حتیٰ کہ عاجزی اور ہو شیاری بھی۔‘‘ یعنی بعض لوگ جو بے کار اور نکھٹو ہوتے ہیں اور بعض عقل مند اور ہو شیار، تو یہ بھی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے۔