وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَن ضَيْفِهِ فَطَمَسْنَا أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ
اور ان سے ان کے مہمانوں کا مطالبہ کرنے لگے تو ہم نے ان کی آنکھوں کو بے نور [٢٧] بنا دیا (اور کہا) اب میرے عذاب اور میری تنبیہ کا مزا چکھو
وَ لَقَدْ رَاوَدُوْهُ عَنْ ضَيْفِهٖ ....: ’’ رَاوَدُوْهُ ‘‘ باب مفاعلہ سے ہے۔ ’’مُرَاوَدَةٌ‘‘ نرمی اور ملائمت سے باربار مطالبہ کرنا، پھسلانا، بہکانا، فریب سے غلط کام پر آمادہ کرنا۔ یہاں باب مفاعلہ مشارکت کے لیے نہیں مبالغہ کے لیے ہے۔ ’’ ضَيْفِهٖ ‘‘ سے مراد فرشتے ہیں جو خوبصورت لڑکوں کی شکل میں مہمان بن کر آئے تھے۔ قوم کو ان کے آنے کا علم ہوا تو انھوں نے لوط علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ انھیں ان کے حوالے کر دیں۔ ’’ رَاوَدُوْهُ ‘‘ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ انھوں نے لوط علیہ السلام پر دھوکے، فریب، بہکانے، پھسلانے، دھونس اور دھاندلی کا ہر طریقہ آزمایا کہ کسی طرح ہی وہ دھوکے میں آ کر انھیں ان کے حوالے کر دیں۔ وہ لوگ جو اس مقصد کے لیے آئے تھے جب حد سے بڑھ گئے اور ان لڑکوں کو زبردستی چھیننے کے لیے گھر میں داخل ہونے لگے اور لوط علیہ السلام سخت گھبرا گئے تو فرشتوں نے بتایا کہ ہم آپ کے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، یہ لوگ آپ تک کسی صورت نہیں پہنچ سکیں گے۔ (دیکھیے ہود : 81،80) اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھیں مٹا دیں، انھیں اندھا کر دیا کہ بڑا عذاب آنے سے پہلے میرے اس عذاب اور میری تنبیہ کا مزا چکھو۔