تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِّمَن كَانَ كُفِرَ
جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی [١٤]۔ یہ بدلہ اس شخص کی خاطر دیا گیا جس کا انکار [١٥] کیا گیا تھا۔
1۔ تَجْرِيْ بِاَعْيُنِنَا: جب آسمان کے دروازے پانی کے ساتھ کھلنے اور زمین کے چشموں کے ساتھ پھٹ جانے سے زمین و آسمان کا پانی ایک ہو گیا تو اس پانی کی بلندی کا اندازہ کون کر سکتا ہے۔ اس کشتی میں بیٹھے ہوئے نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو کچھ معلوم نہیں کہ کدھر جانا ہے اور اسے موجوں سے کس طرح بچانا ہے، نہ کشتی پر یا پانی پر ان کا کوئی اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اس وقت وہ کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی، اس کے نگران و محافظ ہم تھے، پھر اسے کوئی گزند کیسے پہنچ سکتا تھا۔ 2۔ جَزَآءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ: اس کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ یہ سب کچھ اس شخص کا بدلا لینے کی خاطر کیا گیا جس کا انکار کیا گیا اور اسے نبی تسلیم نہیں کیا گیا۔ ’’ كُفِرَ ‘‘ کا دوسرا معنی ناشکری اور ناقدر شناسی ہے، یعنی نوح علیہ السلام اس قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت تھے اور انھوں نے اس کی قدر نہیں کی۔ یعنی اس شخص کا انتقام لینے کی خاطر جو ایک عظیم نعمت تھا مگر اس کی قدر نہیں پہچانی گئی۔