فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكَ تَتَمَارَىٰ
پس تو (اے انسان!) اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں [٣٧] میں شک کرے [٣٨] گا ؟
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ تَتَمَارٰى: ’’تَمَارٰي يَتَمَارٰي تَمَارِيًا‘‘ (تفاعل) شک کرنا۔ ’’ اٰلَآءِ ‘‘ ’’إِلًي‘‘ (جو اصل میں ’’إِلَيٌ‘‘ تھا ) کی جمع ہے، نعمتیں، جیسا کہ ’’مِعًي‘‘ کی جمع ’’ أَمْعَاءُ ‘‘ ہے، انتڑیاں۔ یہاں سوال ہے کہ ان اقوام کی ہلاکت کے ذکر میں کون سی نعمت بیان ہوئی ہے جس میں شک کی گنجائش ہی نہیں۔ استاد محمد عبدہ لکھتے ہیں : ’’سیاقِ کلام کی بنا پر یہاں نعمت سے مراد ظالم و سرکش قوم کی تباہی ہے، معلوم ہوا کہ کسی ظالم و سرکش قوم کو تباہ کرنا بھی انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔‘‘ (اشرف الحواشی) ایک جواب اس کا یہ ہے کہ ظلم اور سرکشی کے انجام سے آگاہ کر دینا بھی بہت بڑا انعام ہے، جیسا کہ سورۂ رحمن میں مجرموں کے لیے جہنم کا عذاب بیان کرنے کے بعد فرمایا : ﴿فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ﴾ [الرحمٰن: ۴۵ ] ’’تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟ ‘‘