الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ
جو کبیرہ گنا ہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں الا یہ کہ چھوٹے گناہ [٢٢] (ان سے سرزدہوجائیں) بلاشبہ آپ کے پروردگار کی مغفرت بہت وسیع [٢٣] ہے۔ وہ تمہاری اس حالت کو بھی خوب جانتا ہے جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس حالت کو بھی جب تم اپنی ماؤں کے بطنوں میں [٢٤] جنین تھے لہٰذا تم اپنے پاک ہونے کا دعویٰ نہ کرو۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ کون پرہیزگار ہے۔
1۔ اَلَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىِٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ ....: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ شوریٰ (۳۷) کی تفسیر۔ 2۔ اِلَّا اللَّمَمَ: ’’اَلْإِلْمَامُ‘‘ اور ’’اَللَّمَمُ‘‘ کا اصل معنی ’’کسی جگہ تھوڑی دیر کے لیے اترنا‘‘ ہے۔ ’’أَلَمَّ فُلَانٌ بِالْمَكَانِ‘‘ جب کوئی شخص کسی جگہ تھوڑی دیر کے لیے اترا ہو۔ یعنی بھلائی کرنے والے لوگ جنھیں اللہ بھلائی کے ساتھ جزا دے گا، وہ ہیں جو کبیرہ گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں، مگر کبھی کسی وقت ان سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ اس پر اصرار نہیں کرتے بلکہ فوراً توبہ کر کے اس سے نکل جاتے ہیں۔ گناہ سے ان کی آلودگی تھوڑی دیر کے لیے ہوتی ہے۔ (دیکھیے نساء : ۱۷،۱۸) طبری نے صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے : ’’اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی فاحشہ کا ارتکاب کرتا ہے پھر توبہ کر لیتا ہے۔‘‘ ’’ اللَّمَمَ ‘‘ کا معنی ’’قریب ہونا‘‘ بھی ہے، ’’ أَلَمَّ بِالشَّيْءِ إِذَا قَارَبَهُ وَلَمْ يُخَالِطْهُ ‘‘جب کوئی شخص کسی کام کے قریب ہوا ہو، مگر اس نے وہ کام نہ کیا ہو۔ اس لیے اکثر سلف نے ’’اللَّمَمَ‘‘ سے مراد صغیرہ گناہ لیے ہیں۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : ’’میں نے ’’ اللَّمَمَ ‘‘ کے مشابہ اس سے زیادہ کوئی چیز نہیں دیکھی جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ كَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا، أَدْرَكَ ذٰلِكَ لاَ مَحَالَةَ، فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَ زِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَمَنّٰی وَتَشْتَهِيْ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذٰلِكَ كُلَّهُ وَ يُكَذِّبُهُ )) [ بخاري، الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : ۶۲۴۳ ] ’’اللہ تعالیٰ نے ابنِ آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے لامحالہ اس نے پانا ہی پانا ہے۔ سو آنکھ کا زنا دیکھنا ہے اور زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا کرتا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس سب کو سچا کر دکھا تی ہے یا جھوٹا۔ ‘‘ مزید دیکھیے سورۂ نساء (۳۱) کی تفسیر۔ 3۔ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ: اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ’’رَبٌّ‘‘ کا ذکر کر کے فرمایا کہ تیرا رب وسیع بخشش والا ہے، یعنی اس کی ربوبیت کا نتیجہ ہے کہ وہ بندوں کے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے اور انھیں معاف فرماتا ہے، ورنہ اگر وہ ہر چھوٹے بڑے گناہ پر گرفت فرمائے تو زمین پر کوئی متنفس باقی نہ چھوڑے۔ اس کی مغفرت اتنی وسیع ہے کہ وہ توبہ کرنے والوں کا ہر گناہ حتیٰ کہ کفر و شرک بھی معاف کر دیتا ہے اور جسے چاہے کفر و شرک کے سوا توبہ کے بغیر بھی سب کچھ معاف کر دیتا ہے۔ 4۔ هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ....: ’’ اَجِنَّةٌ ‘‘ ’’جَنِيْنٌ‘‘ کی جمع ہے، بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں رہے، کیونکہ وہ وہاں چھپا ہوا ہوتا ہے۔ یعنی اس کی مغفرت کی یہ وسعت اس کے علم کی وسعت کی وجہ سے ہے، وہ تم سے بھی زیادہ تمھارا علم رکھتا ہے، اسے تمھارا اس وقت کا حال بھی معلوم ہے جب تم اس قابل ہی نہیں تھے کہ کچھ جان سکو۔ چنانچہ وہ تمھارے اس وقت کا بھی علم رکھتا ہے جب اس نے تمھیں زمین سے پیدا کیا اور اس وقت کا بھی جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں جنین کی حالت میں تھے۔ اسے تمھاری کمزوری اور گناہ کی طرف رغبت خوب معلوم ہے، اس لیے وہ چھوٹے موٹے گناہوں کو ویسے ہی معاف کر دیتا ہے۔ 5۔ فَلَا تُزَكُّوْا اَنْفُسَكُمْ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى: اس لیے اگر تمھیں کسی اچھے کام کی توفیق مل جائے تو نہ اس پر فخر کرو اور نہ اپنے آپ کو پاک قرار دو۔ ہمیشہ اپنی ابتدا پر نظر رکھو اور اپنی انتہا پر بھی، کیونکہ تمھارا انجام اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اچھا ہے یا برا۔ وہی جانتا ہے کہ حقیقی متقی کون ہے، جس کا خاتمہ تقویٰ پر ہو گا، تو جب تمھیں اپنا انجام ہی معلوم نہیں تو اپنے پاک ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہو؟ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نساء کی آیت (۴۹) کی تفسیر۔ 6۔ اس حکم کی دھڑلے کے ساتھ مخالفت سب سے زیادہ بعض صوفی حضرات نے کی ہے۔ اس کی واضح دلیل ان کا ’’وحدت الوجود‘‘ کا عقیدہ ہے، بھلا جو شخص مردہ مٹی سے بنا، پھر رحم کی تین ظلمتوں میں غلیظ خون کے ساتھ پرورش پاتا رہا اور پیشاب کے راستوں سے دو دفعہ گزر کر وجود میں آیا، جسے اپنے انجام تک کا علم نہیں کہ جنت ہے یا جہنم، اسے خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے حیا نہیں آتی۔ ان لوگوں نے اپنی ’’ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰي ‘‘ کی فرعونیت کو زہد و تقدس کے پردے میں چھپا رکھا ہے۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے : ’’سُبْحَانِيْ مَا أَعْظَمَ شَأْنِيْ‘‘ ’’میں پاک ہوں، میری شان کس قدر عظیم ہے۔‘‘ کوئی کہتا ہے : ’’مُلْكِيْ أَعْظَمُ مِنْ مُلْكِ اللّٰهِ‘‘ ’’میرا ملک اللہ کے ملک سے بڑا ہے۔‘‘ کوئی کہتا ہے : ’’میرا دل چاہتا ہے دوزخ کو بجھا دوں، جنت کو جلا دوں۔‘‘ غرض اپنی پاکبازی کے دعوے کے ساتھ جو لاف زنی اور بے ہودہ گوئی یہ لوگ کرتے ہیں آپ کو اور کسی جگہ مشکل سے ملے گی۔