سورة النجم - آیت 26

وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَاءُ وَيَرْضَىٰ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کسی کے کچھ [١٧] بھی کام نہ آئے گی الا یہ کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہے اس فرشتے کو اس کا اذن دے اور وہ سفارش اسے پسند بھی ہو

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِيْ شَفَاعَتُهُمْ شَيْـًٔا....: یعنی تمھارے یہ حاجت روا اور مشکل کشا اور فرشتوں کے ناموں پر بنائے ہوئے دیوی دیوتا تو محض تمھارے وہم و گمان کی پیداوار ہیں، حقیقت میں ان کا کہیں وجود ہی نہیں۔ یہاں تو حقیقی فرشتے جو آسمانوں میں رہتے ہیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہے، ان کا بھی یہ حال ہے کہ ان میں سے کسی کی سفارش کام نہیں آتی، سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ اجازت دے اور اسی کو فائدہ دیتی ہے جس کے حق میں سفارش کو اللہ تعالیٰ پسند فرمائے اور اس کے حق میں سفارش کی اجازت دے۔ غرض سفارش کا اختیار بھی اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، فرمایا : ﴿قُلْ لِّلّٰهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيْعًا ﴾ [ الزمر : ۴۴ ] ’’کہہ دے سفارش ساری کی ساری اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘ پھر اسے چھوڑ کر تم کسی اور کو کیوں پکارتے اور پوجتے ہو؟ شفاعت کے متعلق مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۵۵) : ﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗ اِلَّا بِاِذْنِهٖ﴾ (آیت الکرسی) اور سورۂ نبا (۳۸) کی تفسیر۔