أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ
کیا بھلا تم نے لات و عزیٰ (دیویوں) پر بھی غور کیا ؟
1۔ اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰى....: گزشتہ آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صراطِ مستقیم پر استقامت اور آپ کی ہر بات اللہ تعالیٰ کی وحی پر موقوف ہونے کا ذکر ہوا، اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دینے والے فرشتے کی قوت و عظمت کا ذکر ہوا، اس کے زمین پر اور آسمانوں پر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس نزول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب آ کر وحی پہنچانے کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے اور اللہ تعالیٰ کی دوسری بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھنے کا ذکر ہوا۔ ان سب باتوں سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت، اس کا جلال اور اس کی وحدانیت خود بخود ظاہر ہو رہی ہے کہ جب اس کے رسول کا، فرشتوں کا اور اس کی زمین و آسمان پر بے شمار نشانیوں کی عظمت کا یہ عالم ہے تو وہ خود کتنی قدرتوں کا مالک ہو گا۔ اس لیے ساتھ ہی اپنی توحید کی طرف توجہ دلانے اور مشرکین کو ان کی حماقت پر متنبہ کرنے کے لیے فرمایا کہ جب تم میری قدرتوں کو سن اور دیکھ چکے تو پھر کیا تم نے لات اور عزیٰ کو بھی دیکھا ہے؟ کیا سوچا بھی جا سکتا ہے کہ یہ معبود ہیں یا اس عظیم الشان کائنات میں ان کا کوئی دخل ہے ؟ یہ اندازِ بیان ان بتوں کی انتہائی تحقیر اور ان پر طنز کا اظہار ہے، جیسے کوئی انتہائی کمزور اور ہاتھ پاؤں سے معذور شخص بادشاہ ہونے کا دعویٰ کر دے تو سبھی کہیں گے، اسے دیکھو یہ بادشاہ سلامت ہے۔ 2۔ طبری نے فرمایا : ’’مشرکین نے اپنے بتوں اور آستانوں کے نام اللہ تعالیٰ کے ناموں کی مؤنث بنا کر رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ انھوں نے لفظ ’’اَللّٰهُ‘‘ کے ساتھ تائے تانیث ملا کر ’’اَللَّاتُ‘‘ بنا لیا، جیسے ’’عَمْرٌو‘‘ مذکر کے لیے ’’عَمْرَةٌ‘‘ مؤنث اور ’’عَبَّاسٌ‘‘ مذکر کے لیے ’’عَبَّاسَةٌ‘‘ مؤنث بنا لیتے ہیں اور ’’عَزِيْزٌ‘‘ سے ’’عُزّٰي‘‘ بنا لیا ( جو ’’أَعَزُّ‘‘ اسم تفضیل کی مؤنث ہے)۔‘‘ یہاں ایک سوال ہے کہ لفظ ’’اَللّٰهُ‘‘ کا مؤنث ’’اَللَّاتُ‘‘ کیسے بن گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ ’’اَللّٰهُ‘‘ اصل میں ’’اَلْإِلٰهُ‘‘ ہے، مؤنث اس کا ’’اَلْإِلٰهَةُ‘‘ بنے گا، مگر انھوں نے تخفیف کے لیے اسے ’’اَللَّاتُ‘‘ بنا لیا اور معلوم ہے کہ تخفیف کا کوئی طے شدہ قاعدہ نہیں۔ شیخ عبدالرحمن سعدی لکھتے ہیں : ’’مَنَاةٌ‘‘ ’’مَنَّانٌ‘‘ کی مؤنث بنا لی گئی ہے۔‘‘ ظاہر ہے یہاں بھی تخفیف کا قاعدہ ہی استعمال ہوا ہے۔ طبری نے فرمایا : ’’مشرکین نے اپنے اوثان کے نام اللہ تعالیٰ کے ناموں کی مؤنث بنا کر رکھے ہوئے تھے اور دعویٰ یہ کرتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ (اللہ تعالیٰ ان کے اس بہتان سے بہت بلند ہے) تو اللہ جل ثناء ہ نے انھیں مخاطب کر کے فرمایا کہ لات و عزیٰ اور تیسرے ایک اور منات کو اللہ کی بیٹیاں کہنے والو! ’’ اَلَكُمُ الذَّكَرُ ‘‘ کیا تم اپنے لیے اولاد لڑکے پسند اور لڑکیاں ناپسند کرتے ہو اور ’’ وَ لَهُ الْاُنْثٰى ‘‘ اس کے لیے لڑکیاں قرار دیتے ہو، جنھیں اپنے لیے کسی صورت پسند نہیں کرتے، بلکہ ان سے اتنی شدید نفرت رکھتے ہو کہ انھیں زندہ درگور کر دیتے ہو۔‘‘ 3۔ ’’ اللّٰتَ ‘‘ کی قراء ت میں اختلاف ہے۔ اکثر قراء اسے ’’تاء‘‘ کی تشدید کے بغیر پڑھتے ہیں، اس مفہوم کے مطابق جس کا اوپر ذکر ہوا ہے اور بعض اسے ’’اَللاَّتُّ‘‘ (تاء کی تشدید کے ساتھ) پڑھتے ہیں، جو ’’لَتَّ يَلُتُّ‘‘ (ن) سے اسم فاعل ہے، جس کا معنی بلونا اور لت پت کرنا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : (( كَانَ اللاَّتُ رَجُلاً يَلُتُّ سَوِيْقَ الْحَاجِّ )) [ بخاري، التفسیر، سورۃ النجم : ۴۸۵۹ ] ’’لات ایک مرد تھا جو ستو بلو کر حاجیوں کو پلاتا تھا۔‘‘ پہلی قراء ت اس لیے راجح ہے کہ اکثر قراء نے ایسے ہی پڑھا ہے اور اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو اس بات پر جھڑکا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں قرار دیتے ہیں، جبکہ دوسری قراءت کے مطابق ’’لات‘‘ ایک مرد تھا۔ ’’لات‘‘ کے مؤنث ہونے کی ایک دلیل صحیح بخاری (۲۷۳۱، ۲۷۳۲) میں مذکور صلح حدیبیہ والی طویل حدیث ہے، جس میں ہے کہ جب کفار کے نمائندے سہیل بن عمرو نے کہا کہ تم مختلف لوگ اکٹھے ہو گئے ہو، جنگ ہوئی تو بھاگ جاؤ گے، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (( اُمْصُصْ بَظْرَ اللاَّتِ أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ )) ’’لات کی شرم گاہ کو چوس، کیا ہم آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟‘‘ واضح رہے ’’بَظْرٌ‘‘ عورت کی شرم گاہ کو کہا جاتا ہے۔ 4۔ عرب میں بتوں کے بے شمار آستانے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ان تین کا ذکر اس لیے فرمایا کہ یہ ان کے سب سے مشہور اور بڑے بت تھے۔ مکہ، طائف، مدینہ اور حجاز کے اکثر علاقوں کے لوگ انھیں سب سے زیادہ پوجتے تھے۔ لات طائف میں تھا، بنو ثقیف اس کے پجاری اور متولی تھے۔ عزیٰ قریش کی خاص دیوی تھی جس کا اَستھان مکہ اور طائف کے درمیان مقام نخلہ پر تھا۔ وہاں عمارت کے علاوہ درخت بھی تھے جن کی پوجا ہوتی تھی۔ قریش کے ہاں اس کی تعظیم کا اندازہ صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتا ہے جس میں ہے کہ جنگِ اُحد کے موقع پر جب کفار مسلمانوں کو کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوئے تو پہاڑ پر چڑھ کر ابو سفیان نے فخر سے کہا : ’’ لَنَا الْعُزّٰی وَلاَ عُزّٰی لَكُمْ‘‘ (ہمارے پاس عزیٰ ہے، تمھارے پاس کوئی عزیٰ نہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اسے جواب دو : (( اَللّٰهُ مَوْلاَنَا وَلاَ مَوْلٰی لَكُمْ )) ’’اللہ ہمارا مولیٰ ہے، تمھارا کوئی مولیٰ نہیں۔‘‘ [ بخاري، الجہاد والسیر، باب ما یکرہ من التنازع....: ۳۰۳۹ ] منات کا مندر مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے مشلل کے قریب قدید کے مقام پر تھا۔ [ دیکھیے بخاري، التفسیر، سورۃ النجم : ۴۸۶۱ ] مدینہ کے اوس و خزرج اور ان کے ہمنوا اس کی پوجا کرتے تھے۔ ان تمام بتوں کے مندر تھے اور ان کے باقاعدہ پروہت اور پجاری بھی تھے۔ کعبہ کی طرح ان پر بھی جانور لا کر قربان کیے جاتے تھے۔ ابن کثیر نے اس مقام پر سیرت ابن اسحاق سے عرب کے بتوں کا تذکرہ تفصیل سے نقل کیا ہے کہ وہ کہاں کہاں تھے، ان کی شکل کیا تھی اور کون کون سے صحابہ نے انھیں منہدم کیا۔ یہ تفصیل ان کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ 5۔ وَ مَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى: یہاں ایک سوال ہے کہ ’’ الثَّالِثَةَ ‘‘ (تیسرا) کہنے کے بعد ’’ الْاُخْرٰى ‘‘ (ایک اور یا بعد والا) کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ جواب اس کا یہ ہے کہ مشرکین کے ہاں بتوں اور دیویوں کے بھی درجے ہیں، لات اور عزیٰ کو جو مقام حاصل تھا وہ منات کو حاصل نہ تھا۔ اس کا تذکرہ ان الفاظ میں یہ ظاہر کرنے کے لیے فرمایا کہ اس کا نمبر تمھارے ہاں بھی تیسرا اور دونوں کے بعد ہے۔ یہ بھی شرک پر بہت بڑی چوٹ ہے کہ وہ معبود ہی کیا ہوا جو دوسرے معبود کو برداشت کرتا ہے اور متعدد معبود اپنی اپنی حیثیت پر قناعت کرتے اور خوش رہتے ہیں، بھلا معبود برحق ایسا ہونا چاہیے؟ ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کے بتوں میں بھی یہ تقسیم موجود تھی، جیسا کہ فرمایا : ﴿فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِيْرًا لَّهُمْ﴾ [الأنبیاء : ۵۸] ’’پس اس نے انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، سوائے ان کے ایک بڑے کے۔‘‘ 6۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے ایک روایت بیان کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچے تو شیطان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر یہ کلمات جاری کر دیے : ’’تِلْكَ الْغَرَانِيْقُ الْعُلٰي وَ إِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرْتَجٰي‘‘ اس روایت کی حقیقت کے لیے دیکھیے سورۂ حج کی آیت (۵۲) کی تفسیر۔