إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ
جبکہ اس سدرہ پر چھا رہا تھا جو (نور) چھا رہا تھا
اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى: سدرۃ المنتہیٰ کے مشاہدے کے وقت اس پر انوار کی بارش، فرشتوں کے ہجوم اور اس کے جلال و جمال کے منظر کی نقشہ کشی کے لیے انسان کے استعمال میں آنے والی زبانوں کی تنگ دامانی کی طرف اشارہ ہے۔ (دیکھیے طٰہٰ : ۷۸) حدیث میں اس کے متعلق چند اشارے آئے ہیں، ان میں سے ایک کا ذکر پچھلی آیت کی تفسیر میں گزر چکا ہے : (( وَ غَشِيَهَا أَلْوَانٌ لاَ أَدْرِيْ مَا هِيَ )) [ دیکھیے بخاري : ۳۴۹ ] ’’اور اسے ایسے رنگوں نے ڈھانپا ہوا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ نے حدیث معراج میں سدرۃ المنتہیٰ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ بیان فرمائے : ((فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللّٰهِ مَا غَشِيَ تَغَيَّرَتْ فَمَا أَحَدٌ مِّنْ خَلْقِ اللّٰهِ يَسْتَطِيْعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا فَأَوْحَی اللّٰهُ إِلَيَّ مَا أَوْحٰی)) [ مسلم، الإیمان، باب الإسراء برسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ....: ۱۶۲ ] ’’پھر جب اس کو اللہ کے حکم سے ڈھانکا جس چیز نے ڈھانکا تو اس کی حالت بدل گئی، پھر اس کا یہ حال تھا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی اس کی خوب صورتی بیان نہیں کر سکتا، اس وقت اس نے میری طرف وحی کی جو وحی کی۔‘‘ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (( ﴿اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى ﴾ قَالَ فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ )) [ مسلم، الإیمان، باب في ذکر سدرۃ المنتہٰی : ۱۷۳ ] ’’سدرۃ المنتہیٰ کو ڈھانک رہا تھا جو ڈھانک رہا تھا‘‘سے مراد سونے کے پروانے ہیں۔‘‘ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر گئے تھے، ان کی اصل صورت میں ایک بار پھر دیکھا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت : ﴿وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى (13) عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( رَأَيْتُ جِبْرِيْلَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ، يَنْتَثِرُ مِنْ رِيْشِهِ التَّهَاوِيْلُ الدُّرُّ وَالْيَاقُوْتُ )) [ مسند أحمد : 1؍460، ح : ۴۳۹۵ ] ’’میں نے جبریل صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اس کے چھ سو بازو تھے اور اس کے پروں سے حیران کن رنگا رنگ موتی اور یاقوت جھڑ رہے تھے۔‘‘ مسند کے محقق نے فرمایا : ’’إِسْنَادُهُ حَسَنٌ‘‘ کہ اس کی سند حسن ہے اور ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’هٰذَا إِسْنَادٌ جَيِّدٌ قَوِيٌّ‘‘ کہ اس کی سند جید قوی ہے۔