أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ
اب کیا تم اس بات میں جھگڑا کرتے ہو جو اس نے آنکھوں [٨] سے دیکھا ہے۔
1۔ اَفَتُمٰرُوْنَهٗ: ’’تُمَارُوْنَ‘‘ ’’مَارٰي يُمَارِيْ مِرَاءً وَ مُمَارَاةً‘‘ (مفاعلہ) سے فعل مضارع معلوم جمع مذکر حاضر ہے، جھگڑا کرنا۔ یہ مشرکین مکہ سے خطاب ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بتایا کہ میرے پاس کوئی شیطان نہیں بلکہ جبریل فرشتہ آتا ہے اور میں اسے دیکھتا ہوں، اس کی اصل صورت میں بھی میں نے اسے دیکھا ہے تو انھوں نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا اور جھگڑنے لگے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم اپنے صاحب کو خود صادق و امین تسلیم کرتے ہو، جب وہ تم سے کہتا ہے کہ اس کے پاس جبریل فرشتہ آتا ہے اور وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو تم اس سے جھگڑنے لگتے ہو، آخر تمھارے پاس اسے جھٹلانے اور اس پر جھگڑا کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ إِذَا لَمْ تَرَ الْهِلَالَ فَسَلِّمْ لِأُنَاسٍ رَأَوْهُ بِالْأَبْصَارِ ’’جب تمھیں چاند نظر نہیں آیا تو ان لوگوں کی بات مان لو جنھوں نے اسے آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘‘ 2۔ عَلٰى مَا يَرٰى : واضح رہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’أَفَتُمَارُوْنَهُ عَلٰي مَا رَأَي‘‘ ’’پھر کیا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو جو اس نے دیکھا‘‘ بلکہ فرمایا : ﴿اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا يَرٰى ﴾ ’’پھر کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو وہ دیکھتا ہے‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس بات کو وہ جھٹلاتے تھے وہ یہ تھی کہ میں جبریل فرشتے کو دیکھتا ہوں جب وہ میرے پاس آتا ہے اور حقیقت بھی یہی تھی کہ پہلی دفعہ جب جبریل علیہ السلام غارِ حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو اگرچہ اصل صورت میں نہ تھے، مگر بعد میں جب وہ اپنی اصل صورت میں اس شان سے سامنے آئے کہ زمین سے آسمان تک اور دائیں سے بائیں تک پورا اُفق ان سے بھرا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً پہچان گئے کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو غارِ حرا میں میرے پاس آیا تھا۔ دیکھیے اسی سورت کی آیت (۶ تا ۹) کے آخری فائدہ میں مذکور حدیث۔ اس سے ظاہر ہے کہ جبریل علیہ السلام کے آنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں پہچان لیتے تھے، خواہ کسی حالت میں آئیں۔