إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ
جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے [٣]
1۔ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى: ’’ هُوَ ‘‘ سے مراد یا تو قرآن مجید اور دین ہے جس کے متعلق مشرکین کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس سے بنا لیا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ ﴾ [ السجدۃ : ۳ ] ’’یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے۔ بلکہ وہ تیرے رب کی طرف سے حق ہی ہے۔‘‘ اس لیے قرآن اور دین کے متعلق فرمایا کہ وہ وحی کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری جگہ فرمایا : ﴿فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ ﴾ [الأنعام : ۳۳ ]’’تو بلاشبہ وہ تجھے جھوٹا نہیں کہتے اور لیکن وہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ ‘‘ یا اس ’’ هُوَ ‘‘ سے مراد ’’ يَنْطِقُ ‘‘ کے ضمن میں پایا جانے والا ’’منطوق بہ‘‘ ہے، یعنی وہ بات جو وہ بولتا ہے وحی کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی طرف کی جاتی ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر بات وحی کے بعد ہی کرتے تھے؟ اگر ہاں کہا جائے تو ان متعدد باتوں کے متعلق کیا کہا جائے گا جن کی اللہ تعالیٰ نے اصلاح فرمائی؟ مثلاً فرمایا : ﴿عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۴۳ ] ’’ اللہ نے تجھے معاف کردیا، تو نے انھیں کیوں اجازت دی۔‘‘ اور فرمایا : ﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ اَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ﴾ [ الأنفال : ۶۷ ] ’’کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا۠ لِلْمُشْرِكِيْنَ۠﴾ [ التوبۃ : ۱۱۳ ] ’’اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ﴾ [ التحریم : ۱ ] ’’اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟‘‘ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ رضی اللہ عنھم کے ساتھ مشورے کا حکم دیا، فرمایا : ﴿وَ شَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ﴾ [آل عمران : ۱۵۹] ’’اور کام میں ان سے مشورہ کر۔‘‘ جب کہ وحی کے بعد نہ مشورے کی ضرورت ہے نہ اجازت کی۔ جواب اس سوال کا یہ ہے کہ یہاں ان باتوں کو وحی قرار دیا جا رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے قرآنِ مجید یا شریعت کے حکم کے طور پر بیان فرماتے تھے۔ مفسر ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ‘‘ أَيْ إِنَّمَا يَقُوْلُ مَا أُمِرَ بِهِ، يُبَلِّغُهُ إِلَي النَّاسِ كَامِلًا مُوَفِّرًا مِنْ غَيْرِ زِيَادَةٍ وَلاَ نُقْصَانٍ ‘‘ ” یعنی ’’ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی بات کہتے تھے جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جاتا تھا کہ کسی کمی یا زیادتی کے بغیر پوری پوری لوگوں تک پہنچا دیں۔‘‘ اس وحی میں قرآن مجید بھی شامل ہے اور حدیث بھی۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا اسے حفظ کرنے کے ارادے سے لکھ لیتا تھا، تو قریش نے مجھے منع کیا اور کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی سنتے ہو لکھ لیتے ہو، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بشر ہیں، جو کبھی غصے میں بات کرتے ہیں اور کبھی خوشی میں، تو میں نے لکھنا ترک کر دیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دہن مبارک کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : (( اُكْتُبْ فَوَ الَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ ! مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلاَّ حَقٌّ )) [ أبو داؤد، العلم، باب کتابۃ العلم : ۳۶۴۶، وقال الألباني صحیح ] ’’لکھو، کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس (منہ) سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔‘‘ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنِّيْ لاَ أَقُوْلُ إِلاَّ حَقًّا)) ’’میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔‘‘ تو آپ کے کسی صحابی نے کہا : ’’یا رسول اللہ! آپ تو ہم سے خوش طبعی بھی کر لیتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنِّيْ لاَ أَقُوْلُ إِلاَّ حَقًّا ))’’بلاشبہ میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔‘‘ [ مسند أحمد :2؍340، ح : ۸۴۸۱ ] مسند احمد کے محقق نے فرمایا : ’’إِسْنَادُهُ قَوِيٌّ‘‘ کہ اس کی سند قوی ہے۔ 2۔ اس مقام پر مفسر عبدالرحمن کیلانی نے ’’تیسیر القرآن‘‘ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی حیثیت کے متعلق بہت مفید بحث لکھی ہے جس میں منکرینِ حدیث کے مغالطوں کا جواب بھی آ گیا ہے۔ فوائد کے پیشِ نظر وہ بحث یہاں درج کی جاتی ہے : ’’ان آیات کے اوّلین مخاطب تو کفار مکہ ہیں، مگر یہ آیتیں چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو وحی اور واجب الاتباع قرار دیتی ہیں، لہٰذا منکرین حدیث ان کو مقید بھی کرتے ہیں اور ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب نے یوں کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر جا کر اپنی کسی زوجہ سے یہ کہتے ہیں کہ ’’میرا جوتا لاؤ‘‘ تو کیا یہ بھی وحی ہوتی تھی؟ اور اکثر منکرین اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو کچھ وحی کی جاتی رہی وہ سب قرآن میں آ گئی ہے۔ اسی پر کفار کو اعتراض اور اسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا تکرار اور جھگڑا رہتا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن کے علاوہ دوسری باتیں جو بحیثیت انسان کے ہیں، وہ قابلِ اتباع نہیں ہیں۔ اس طرح یہ حضرات چونکہ تمام ذخیرۂ حدیث کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو دین سے خارج اور ناقابلِ اتباع بلکہ واضح الفاظ میں بے کار ثابت کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا ہم اس پر ذرا تفصیل سے بات کریں گے۔ ان لوگوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اقوال کو صرف دو حصوں میں تقسیم کر دیا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے کتاب اللہ کے معلّم، مفسر اور شارع بھی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی جو تعلیم، تفسیر اور تشریح فرمائی وہ بھی دین ہی سے متعلق تھی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال دو کے بجائے تین حصوں میں تقسیم ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف بولتے ہی نہ تھے، کچھ کرتے بھی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال بھی اسی طرح واجب الاتباع تھے جیسے اقوال۔ اس طرح تین کے بجائے اور بھی زیادہ حصے ہو گئے۔ مختصراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے درج ذیل پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے معلوم ہو جائے گا کہ دین میں سنت کی کیا ضرورت اور کیا مقام ہے : (1) تشریعی امور : قرآن میں نماز کا حکم تو بہت دفعہ آیا ہے مگر اس کی تفصیل کہیں بھی نہیں کہ اسے کیسے ادا کیا جائے، کتنی نمازیں ہوں، ان کے صحیح اوقات کیا ہیں، ہر نماز میں رکعات کی تعداد کتنی ہے اور اس کی ترکیب کیا ہے؟ اسی طرح حج کیسے ادا کیا جائے، زکوٰۃ کتنی وصول کی جائے؟ قضایا کا فیصلہ کیونکر کیا جائے۔ ہر قضیہ کے لیے شہادتوں کا نصاب اور طریق کار کیا ہے، یا نکاح میں عورت کی رضامندی کا حق اور اس کی اہمیت، خلع کا حق، صلح و جنگ کے قواعد کی تفصیلات وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں کہ انسان سنت یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال سے بے نیاز ہو کر انھیں بجا لا ہی نہیں سکتا۔ گویا قرآن کو ماننے اور جاننے کا واحد ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ پھر یہ تمام مندرجہ امور ایسے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کبھی مشورہ نہیں کیا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کا تاکیدی حکم تھا، کیونکہ یہ امور انسانی بصیرت سے تعلق نہیں رکھتے۔ عام انسان تو کیا ایک نبی بھی ایسے امور کا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں۔ ایسے تمام امور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتائے اور سکھائے جاتے تھے۔ خواہ یہ وحی بذریعہ القا ہو یا جبرئیل علیہ السلام کے بصورتِ انسان سامنے آ کر بتانے کی شکل میں ہو۔ گویا ایسے تمام امور بھی بذریعہ وحی طے پاتے تھے جسے عرف عام میں ’’وحی خفی‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسی تمام تفصیلات قرآن میں مذکور نہیں۔ (2) تدبیری امور : ایسے امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ سے مشورہ لینے کا حکم دیا گیا تھا، مثلاً جنگ کے لیے کون سا مقام مناسب رہے گا، قیدیوں سے کیا سلوک کیا جائے، نظامِ حکومت کیسے چلایا جائے؟ گویا یہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی ہے اور تجربہ سے بھی۔ ایسے امور میں وحی کی ضرورت نہیں ہوتی، الا یہ کہ مشورہ کے بعد فیصلہ میں کوئی غلطی رہ جائے۔ ایسی صورت میں اس فیصلہ کی اصلاح بذریعہ وحی کر دی جاتی ہے، جیسے غزوۂ بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ کے بعد فیصلہ کے متعلق وحی قرآن میں نازل ہوئی۔ (3) اجتہادی امور : اس سے مراد ایسے دینی امور ہیں جن میں کسی پیش آمدہ مسئلہ کا حل سابقہ وحی کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔ گویہ معاملہ ہر ماہر علوم دین کی ذاتی بصیرت سے یکساں تعلق رکھتا ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسئلہ پوچھا کہ میرے باپ پر حج فرض تھا اور وہ مر گیا ہے، کیا میں اب اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بھلا دیکھو! اگر اس کے ذمے قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتی؟‘‘ اس عورت نے کہا : ’’ضرور کرتی۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تو پھر اللہ اس ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘ [ بخاري، جزاء الصید، باب الحج والنذور ....: ۱۸۵۲ ]آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے اجتہادات اور استنباطات کی فہرست بھی طویل ہے، تاہم اس سلسلہ میں بھی جب کبھی کوئی لغزش ہوئی تو اس کی بذریعہ وحی جلی یا خفی اصلاح کر دی گئی۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے یوں روایت کیا کہ ایک آدمی نے پوچھا : ’’یا رسول اللہ! بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، درآں حالیکہ میں صبر کرنے والا، ثواب کی نیت رکھنے والا، آگے بڑھنے والا، پیٹھ نہ پھیرنے والا ہوں، تو کیا اللہ میرے سب گناہ معاف کر دے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں!‘‘ وہ شخص چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر آواز دے کر بلایا اور فرمایا : ’’مگر قرضہ معاف نہ ہو گا، جبریل نے ابھی مجھے اس طرح بتایا ہے۔‘‘ [ نسائي، الجہاد، باب من قاتل فی سبیل اللّٰہ تعالٰی و علیہ دین : ۳۱۵۸۔ مسلم : ۱۸۸۵ ] یعنی سائل کے سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنت کی بشارت دے دی، کیونکہ شہادت ایسا افضل عمل ہے کہ خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی شہید جنت کا حق دار بن جاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی وقت وحی بھیج کر اس میں ترمیم فرما دی۔ (4) طبعی امور : جس میں انسان کی روز مرّہ کی بول چال، خوراک، پوشاک اور دوسرے معاملات آ جاتے ہیں اور ان امور کا تعلق تمام لوگوں سے یکساں ہے۔ ایسے امور میں انسان اور ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نسبتاً وحی سے آزاد تھے، لیکن وہ کون سا پہلو ہے جس میں وحی نے ایسے معاملات پر پابندی نہ لگائی ہو؟ مثلاً انسان اس بات میں تو آزاد ہے کہ وہ چاہے تو گوشت کھائے، چاہے تو سبزی کھائے اور چاہے تو دال کھائے، لیکن وہ حلال اور پاکیزہ چیزیں ہی کھا سکتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی ہدایت ہے کہ کھانے سے پہلے ’’بسم اللہ‘‘ پڑھے، اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے، اپنے آگے سے کھائے، برتن کو صاف کرے اور بعد میں دُعا پڑھے۔ اسی طرح وہ اپنے لباس کے انتخاب کی حد تک تو آزاد ہے لیکن لباس کا ساتر ہونا اور ستر ڈھانکنا ضروری ہے اور عورتوں کے لیے پردہ بھی۔ عورت مردوں جیسا لباس نہ پہنے، نہ مرد عورتوں جیسا لباس پہنیں۔ وہ اپنے اہلِ خانہ سے گفتگو میں آزاد ہے لیکن اپنی بیوی سے حسنِ سلوک اور حسنِ معاشرت کا پابند ہے۔ وہ اپنا کاروبار اختیار کرنے میں آزاد ہے لیکن حرام کاروبار نہیں کر سکتا، نہ جائز کاروبار میں ناجائز طریقوں سے مال کما سکتا ہے۔ ماپ تول میں کمی بیشی نہیں کر سکتا۔ کسی دوسرے سے فریب سے مال نہیں بٹور سکتا۔ نہ ہی سود اور اس کے مختلف طریقوں سے مال اکٹھا کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آخر وہ کون سا پہلو ہے جس میں وہ وحی سے بے نیاز ہے۔ ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ تشریعی امور کا انحصار کلیتاً وحی پر ہے اور قرآن میں احکام چونکہ مجملاً مذکور ہوئے ہیں اور ان کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی نہیں، لہٰذا یہ احکام سنت کے بغیر انجام پا ہی نہیں سکتے۔ باقی تینوں قسم کے امور میں انسان نسبتاً آزاد ہے مگر ان تینوں پہلوؤں پر بھی وحی نے پابندیاں لگائی ہیں اور ہدایات بھی دی ہیں جن میں اکثر کا ذکر قرآن میں نہیں، تو پھر آخر سنت نبوی سے انکار کیسے ممکن ہے اور کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ’’ وَ مَا يَنْطِقُ ‘‘ کا تعلق صرف قرآن ہی سے ہے؟ اور اس نظریہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت کا منکر ہو وہ قرآن کا بھی منکر ہوتا ہے۔‘‘ (تیسیر القرآن)