لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوا وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہوتے ہیں۔ اور چاہتے یہ ہیں کہ ان کی ایسے کاموں پر تعریف کی جائے جو انہوں نے کیے [١٨٨] بھی نہیں، ان کے متعلق یہ گمان نہ کیجئے کہ وہ عذاب سے نجات پا جائیں گے، ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے
یعنی جو کام انھوں نے کیے ہیں ان پر اتراتے چلے جاتے ہیں اور جو کام انھوں نے نہیں کیے ان کے متعلق بھی چاہتے ہیں کہ انھیں ان کے کارناموں میں شمار کیا جائے، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ وہ اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے چھوٹ جائیں گے۔ یہ آیت دراصل یہود اور منافقین کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے کوئی بات دریافت کی تو انھوں نے اس کا غلط جواب دیا، پھر خوش ہوئے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطمئن کر دیا، اب انھیں ہماری تعریف کرنی چاہیے۔ [ بخاری، التفسیر، باب :﴿لا تحسبن الذین یفرحون بما أتوا﴾ : ۴۵۶۸ ] ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لیے تشریف لے جاتے تو بعض منافقین آپ کے ساتھ نہ جاتے اور آپ کے جانے کے بعد ( اپنے گھروں میں) بیٹھے رہنے سے بہت خوش ہوا کرتے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لاتے تو عذر اور بہانے پیش کرتے اور (ان عذر بہانوں پر ) قسم کھاتے اور چاہتے کہ اس کام پر ان کی تعریف کی جائے جو انھوں نے نہیں کیا، چنانچہ اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی : ﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّ يُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا﴾ [بخاری، التفسیر، باب :﴿ولا تحسبن الذين يفرحون بما أتوا﴾ : ۴۵۶۷ ] مگر یہ حکم اہل کتاب اور مسلمانوں کے لیے عام ہے، جو بھی خوشامد پسند ہو گا اور اس قسم کا ذہن رکھے گا کہ اس کے ناکردہ کارناموں پر اس کی تعریف کی جائے اس کے لیے وہ وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ (شوکانی)