أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ ۖ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ (عالم بالا کی) باتیں سن آتے ہیں؟ (اگر ایسی بات ہو) تو ان میں سے کوئی سننے والا [٣٢] صریح سند کے ساتھ وہ بات پیش کرے
اَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَّسْتَمِعُوْنَ فِيْهِ ....: یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ عالمِ بالا کی طرف کان لگائے رکھتے ہیں اور وہاں سے سن آئے ہیں کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہی حق ہے اور یہ بھی سن آئے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں اور نہ اس نے انھیں بھیجا ہے، بلکہ انھوں نے قرآن خود ہی تصنیف کر کے اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگا دیا ہے۔ اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے تو وہ اس کی واضح دلیل پیش کرے، جس سے معلوم ہو کہ وہ واقعی آسمان تک گیا تھا اور وہاں اس نے واقعی اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی باتیں سنی ہیں۔ دیکھیے سورۂ احقاف (۴)اور سورۂ فاطر (۴۰) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے کے لیے کوئی نقلی دلیل بھی نہیں۔