أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ ۚ بَل لَّا يُؤْمِنُونَ
یا (پھر) یہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود ہی بنا ڈالا [٢٦] ہے۔ (بات یہ نہیں) بلکہ یہ ایمان لائیں گے ہی نہیں
اَمْ يَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَهٗ بَلْ لَّا يُؤْمِنُوْنَ: ’’تَقَوَّلَ يَتَقَوَّلُ تَقَوُّلًا‘‘ (تفعّل) تکلف سے بات بنانا اور گھڑنا۔ ’’فُلَانٌ تَقَوَّلَ عَلٰي فُلَانٍ‘‘ ’’فلاں نے فلاں پر جھوٹ گھڑ دیا۔‘‘ یعنی یا وہ قرآن کے متعلق کہتے ہیں کہ نبی نے یہ کلام اپنے پاس سے بنا کر اللہ کے ذمے لگا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ نہیں فرمایا کہ نہیں یہ نبی کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے، کیونکہ خود ان کا دل جانتا ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ اہلِ زبان ہیں وہ اسے سن کر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔ پھر جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتا ہے وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ نبوت سے پہلے چالیس برس تک کسی انسان پر بھی جھوٹ نہ باندھنے والا شخص اللہ پر جھوٹ باندھ سکتا ہے۔ اس لیے فرمایا : ﴿ بَلْ لَّا يُؤْمِنُوْنَ﴾ یعنی ان کی مخالفت کی وجہ یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ مانتے ہی نہیں، انھوں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ ہم کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے۔