يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ
وہاں وہ لپک لپک [١٨] کر ایک دوسرے سے جام شراب لیں گے جس میں نہ یا وہ گوئی [١٩] ہوگی اور نہ کوئی گناہ کا کام
1۔ يَتَنَازَعُوْنَ فِيْهَا كَاْسًا: ’’ كَاْسًا ‘‘ کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ صافات (۴۵) کی تفسیر۔ اہلِ جنت ایک دوسرے سے شراب کے پیالے اس لیے نہیں چھینیں جھپٹیں گے کہ وہاں کسی کمی کا یا ختم ہونے کا اندیشہ ہو گا، بلکہ محض خوش طبعی کے طور پر ایسا کریں گے، کیونکہ چھیننے جھپٹنے کا الگ مزا ہے۔ 2۔ لَا لَغْوٌ فِيْهَا وَ لَا تَاْثِيْمٌ: دنیا کی شراب میں کئی قباحتیں ہیں، جن میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے، حالانکہ عقل ہی اسے جانوروں سے امتیاز اور ان پر برتری عطا کرتی ہے۔ پھر وہ نشہ کی حالت میں بکواس کرنے لگتا ہے، گناہ کے کام کر بیٹھتا ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات اپنی محرم عورتوں تک کی عزت برباد کر بیٹھتا ہے۔ جنت کی شراب میں دنیا کی شراب والی کوئی قباحت نہیں ہو گی، مگر اس میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہوں گی جن کی وجہ سے یہ لوگ اس کی تلخی، بدبو اور بعد کے برے اثرات کے باوجود اسے پیتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ صافات (۴۷)۔