مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ
میں ان سے رزق نہیں چاہتا نہ ہی یہ چاہتا [٤٩] ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔
مَا اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ ....: یہ کلام انسان کی عام عادت کے مطابق کیا گیا ہے، کیونکہ انسان جو کچھ بناتا ہے اپنے کسی فائدے کے لیے بناتا ہے اور جو غلام خریدتا اور اپنی ملکیت میں رکھتا ہے اس سے مقصد اپنی ضروریات کے لیے ان سے کام لینا اور ان کی کمائی کھانا ہوتا ہے۔ فرمایا جن و انس سے نہ میں کسی طرح کا رزق چاہتا ہوں اور نہ میرا یہ مقصد ہے کہ وہ مجھے کھانے کو کچھ دیں۔ ان کے پیدا کرنے سے میرا اپنا کوئی نفع مقصود نہیں، میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ میری بندگی کریں، میرے غلام بن کر رہیں اور اس میں انھی کا فائدہ ہے۔ آیت میں اپنے لیے پہلے رزق کی نفی کی جس میں انسان کی ہر ضرورت آتی ہے، اس کے بعد رزق میں سے انسان کے لیے سب سے ضروری چیز کھانے کی نفی فرمائی۔