لَّقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ
یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے کہا تھا کہ: ’’اللہ تو محتاج ہے [١٨٠] اور ہم غنی ہیں‘‘ جو کچھ انہوں نے کہا ہے اسے ہم لکھ رکھیں گے اور جو وہ انبیاء کو ناحق کرتے رہے (وہ بھی لکھ رکھا ہے) ہم (قیامت کے دن ان سے) کہیں گے کہ اب جلا دینے والے عذاب کا مزا چکھو
1۔ لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيْرٌ:اوپر کی آیات میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے پر زور دیا، اب ان آیات میں یہود کے اعتراضات کا بیان اور ان کا جواب دینا مقصود ہے۔ دراصل یہود یہ اعتراضات نبوت پر طعن کی غرض سے کرتے تھے۔ کتب تفسیر میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : ﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا﴾ [ البقرۃ : ۲۴۵ ] (کون ہے جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض) تو بعض یہود نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا : ’’ لو جی، اللہ تعالیٰ بھی فقیر ہو گئے ہیں اور بندوں سے قرض مانگنے پر اتر آئے ہیں۔‘‘ تو ان کے جواب میں یہ آیت اتری۔ (ابن کثیر) دراصل اس قسم کے اعتراضا ت وہ عوام کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے متنفر کرنے کی غرض سے کرتے تھے، ورنہ وہ بھی خوب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسے الفاظ کہنا کتنی بڑی گستاخی اور کفر ہے۔ (قرطبی) 2۔ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا: یعنی ان کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ گستاخی اور رسولوں کو ناحق قتل کرنا، سب ان کے نامۂ اعمال میں درج کیا جا رہا ہے۔ قیامت کے دن ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور وہ عذاب حریق کی سزا میں گرفتار ہوں گے۔