قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ
ابراہیم نے ان (فرشتوں) سے پوچھا : اے فرستادگان الٰہی! تمہارا کیا مقصد [٢٥] ہے؟
1۔ قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ: جب ابراہیم علیہ السلام مہمانوں کے کھانا نہ کھانے پر خوف زدہ ہوئے اور صاف اظہار بھی کر دیا : ﴿ اِنَّا مِنْكُمْ وَ جِلُوْنَ﴾ [ الحجر : ۵۲ ] ’’ہم تو تم سے ڈرنے والے ہیں۔‘‘ کیونکہ انھیں ان کے فرشتہ ہونے کا اندازہ ہو گیا تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ فرشتوںکا اس طرح آنا معمولی بات نہیں ہوتی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ مَا كَانُوْا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ﴾ [ الحجر : ۸ ] ’’ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر حق (عذاب) کے ساتھ اور اس وقت وہ مہلت دیے گئے نہیں ہوتے۔‘‘ اس لیے وہ شدید ڈر گئے، تو فرشتوں نے ان کا خوف دور کرنے کے لیے ان سے دو باتیں کہیں، ایک یہ : ﴿ لَا تَخَفْ اِنَّا اُرْسِلْنَا اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍ﴾ [ ہود : ۷۰ ] ’’ڈرو نہیں، کیونکہ ہم لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔‘‘ یعنی آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں، ہماری منزل مقصود دوسری ہے۔ دوسری بات انھوں نے یہ کی کہ ہم آپ کو بیٹے اور پوتے اسحاق و یعقوب کی بشارت دینے آئے ہیں۔ (دیکھیے ہود : ۷۱) جب ابراہیم علیہ السلام کو اطمینان ہو گیا تو انھوں نے پوچھا، تو اے بھیجے جانے والے فرشتو! (قومِ لوط کے ساتھ) تمھارا معاملہ کیا ہے اور تم ان کے متعلق کیا کرنا چاہتے ہو؟ یاد رہے ! ’’خَطْبٌ‘‘ کا لفظ عموماً کسی اہم یا سخت معاملے کے متعلق ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ 2۔ اس سارے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاء علیھم السلام عالم الغیب نہیں ہوتے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ حجر (۶۲) کی تفسیر۔